شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کا سیلاب بہہ رہا تھا ‘ہم بھی اِس سیلاب میں ایک آرام دہ جاپانی کار میں آگے بڑھ رہے تھے ‘پورے شہر کی سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک کا راج تھا رنگ برنگ کی نئی پرانی گاڑیوں میں سارا شہر نکل آیا تھا ‘دوپہر کا وقت رمضان کا پہلا عشرہ جاری تھا میں دفتر سے نکلا تو غیر ملک سے آئے میرے دوست نے مجھے اپنی کار میں بٹھا لیا کہ وہ مجھے میرے گھر چھوڑدے گا ‘ہم مختلف قسم کی باتیں کر تے سڑکوں پر رینگ رہے تھے کبھی تو ٹریفک تیز چلنا شروع ہو جاتی لیکن کبھی اچانک ٹریفک جام کا احساس ہو نے لگتا۔ ہم جیسے ہی ایک ریڈ سگنل پر رکے تو فقیروں کی فوج نے مسافروں پر حملہ کر دیا ‘مختلف عمروں کے مرد ‘بو ڑھے ‘جوان ‘عورتیں ‘بچیاں ‘ہیجڑے ‘کاروں پر چڑھ دوڑے ‘رمضان میں عوام سخاوت کے موڈمیں ہو تے ہیں عوام کے اِ س روئیے کا یہ پروفیشنل فقیر خوب فائدہ اٹھاتے ہیں ‘اِن فقیروں میں بہت کم شرافت سے بھیک مانگتے ہیں ورنہ زیا دہ تر تو بھیک نہ دینے پر بد دعائوں کی بارش کر دیتے ہیں ‘اُ ن کے روئیے کی جارحیت دیکھ کر شریف لوگ فوری طو رپر اُنہیں کچھ دے کر جان چھڑاتے ہیں ‘اِن بد معاش فقیروں میں سب سے خطرناک ہیجڑے ہو تے ہیں جو اپنی جوا نی اور طاقت کا بھر پور استعمال کر تے ہیں۔
اُن کے انداز ‘حرکات و سکنات سے لگتا ہے کہ اگر انہیں کچھ نہ دیا تو آپ کی خیر نہیں ‘باقی بھیک مانگنے والے بھی کچھ کم نہیں ہو تے ‘رنگ رنگ کے ڈھونگ رچائے ‘معذوری کے بہروپ اپنا ئے یہ لوگوں کو سرعام لوٹتے ہیں اگر آپ نے ان کو روپیہ دو روپے دئیے تو یہ آپ کے منہ پر مار کر چلے جاتے ہیں ‘ایک تو خیرات اوپر سے بد معاشی جیسے دوسروں کی کما ئی پر لوٹ مار اِن کا پیدائشی حق ہے ‘ معذوروں کے انداز سب سے نرالے ہو تے ہیں معذوری کو اِس رنگ سے پیش کر تے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے ‘ غریب مسافر جو کچھ پا س ہو تا ہے فوری طور پر نکال دیتاہے اِن میں سے کچھ تو صدا لگا کر انکار کی صورت میں آگے بڑھ جاتے ہیں جبکہ کچھ تو ڈھٹا ئی کے کے ٹو پر نظر آتے ہیں یہ اپنی مرضی کا شکار تا ڑتے ہیں پھر اُس گاڑی سے چمٹ جاتے ہیں ‘سگنل کھلنے پر یہ پیچھے ہٹنے کی بجائے ساتھ ساتھ دوڑنا شروع کر دیتے ‘ آخر کار سواری کچھ دے کر ہی جان چھڑاتی ہے ‘ اپنی معذوری غربت ااور بے آسرگی میں رنگ بھر نے کے لیے پراسرار قسم کے بہروپ اپنا رکھے ہو تے ہیں جنہیں دیکھتے ہی انسان سارے پیسے نکال کر انہیں پیش کر دیتا ہے ‘نرم دل لوگ اِن کا خاص ہدف ہو تے ہیں یا اگر کو ئی کسی مشکل میں ہو ‘کسی کا عزیز یا وہ خو د بیمار ہو تو وہ بیچارہ دعائوں کے حصول کے لیے اِن کو پیسے دیتا ہے یہ بھیک مانگنے والے بہت چہرہ شناس ہو تے ہیں ‘ اپنی مرضی کا شکا ر تا ڑکر اُس کی جیب خالی کر کے دم لیتے ہیں۔
ہماری کار کے اوپر بھی اِن بھیک مانگنے والوں کی یلغار ہو چکی تھی جیسے ہی گاڑیاں ٹریفک سگنل پررکی انہوں نے شہد کی مکھیوں کی طرح گاڑیوں پر حملہ کر دیا تھا ‘دوپہر کا وقت سورج سوا نیزے پر آگ کے گو لے بر سا رہا تھا لیکن گدا گروں کی یہ فوج گر می سے بے نیاز عوام پر حملہ آور تھی با ہر سورج آگ بر سا رہا تھا لیکن ہم آرام دہ ٹھنڈی گا ڑی میں بیٹھے تھے اِسی دوران ایک دس سے با رہ سال کی پتلی سی معصوم بچی بڑی بڑی آنکھوں الجھے بالوں ننگے پا ئوں کے ساتھ ہما ری کار کے شیشے سے آلگی ‘ سورج دیوتا کی آتشیں گو لہ باری سے تارکول کی سڑک ابل رہی تھی بچی ننگے پائوں تھی تندور کی طرح ابلتی زمین پر وہ مکئی کے دانوں کی طرح اچھل کو د کر تی گاڑیوں کا طواف کر رہی تھی ۔ نرم و نازک ننگے پائوں آتش فشاں کی طرح آگ اگلتی زمین ‘وہ بار بار پائوں بدل رہی تھی ننگے پائوں ہو نے کی وجہ سے جھلستی تارکول اُس کے پا ئوں سے لپٹی ہو ئی تھی ۔ میں نے مسکرا کر اُس کی طرف دیکھا تو اُسے بھیک کی آس لگ گئی ‘میرا دوست بھی اُس کی طرف متوجہ ہو چکا تھا اُس نے جیب سے ہزار کا نوٹ نکالا اور اشارہ کیا کہ سگنل کے دوسری طرف آکر لے لو’ اِسی دوران ریڈ سگنل سے گرین سگنل ہوا اور ہما ری گا ڑی آگے رینگنے لگی ہم نے چوک کراس کیا ‘جاکر گاڑی سائیڈ پر لگا ئی بچی ہزار کا نوٹ دیکھ چکی تھی لالچ میں گاڑی کے ساتھ ہی تقریبا گھسیٹتی ہو ئی آگئی ‘ بچی کو دیکھ کر اُس کی ماں بھی جو گداگروں کی فوج میں تھی تیزی سے ہماری گاڑی کی طرف آگئی ‘ ماں نے لوگوں میں رحم پیدا کر نے کے لیے معصوم سا بچہ بھی اٹھا یا ہوا تھا اُس نے بھی آکر حملہ کر دیا ‘ منتیں تر لے کر نے شروع کر دیے کہ مجھے بھی راشن کے پیسے دے کر جائو ‘ ماں بھی میرے دوست کے ہاتھ میں ہزار کا نو ٹ دیکھ چکی تھی ‘ میرے دوست نے اشارہ کیا گر می بہت زیادہ ہے تم دونوں ماں بیٹی پچھلی سیٹ پر آکر بیٹھ جا ئو ہما ری اِس آفر پر ماں کی آنکھوں میںخو ف کے سائے لہرانے لگے بچی حیران معصوم نظروں سے ہماری طرف دیکھ رہی تھی میرے دوست نے ٹھنڈے جو س کے پیکٹ نکالے دونوں کو دئیے جو انہوں نے جلدی سے پکڑ لئے ‘ماں وحشی نظروں اور لہجے سے بار بار نوٹ کا تقاضہ کر رہی تھی ‘ اب میرے دوست نے اللہ کی قسم کھا ئی کہ میں تم کو کچھ نہیں کہوں گا بلکہ پو رے مہینے کے پیسے دوں گا۔
آپ دونوں کا ر میں بیٹھ جا ئو اب ماں اور بچی کار میں بیٹھ گئیں ‘ بچی کار میں بیٹھ کر بہت خوش ہو رہی تھی ‘بچی نے پھٹے پرا نے گندے کپڑے پہن رکھے تھے ‘بال الجھے ہو ئے سیاہ رنگ سورج کی تپش سے اور بھی سیاہ ہو گیا تھالیکن اُس کے معصوم چہرے پر سفید آنکھیں اور سفید دانت بھلے لگ رہے تھے ‘ بچی نے جوس پیناشروع کر دیاوہ شاید زندگی میں پہلی بار اِسطرح کی گاڑی میںبیٹھی تھی وہ کار کی سیٹ کے مختلف حصوں کو چھو کر انجوائے کر رہی تھی جن کاروں کو وہ باہر سے صرف دیکھتی تھی آج اُس کے اندر بیٹھی تھی اب میرے دوست نے ہزار کے بہت سارے نوٹ نکالے ماں کو دکھائے اور کہامیں یہ سارے نوٹ تمہیں دوں گا لیکن اُس کی شرط یہ ہو گی کہ تم اب اس بچی سے بھیک نہیں منگوائو گی ‘ ماں فوری مان گئی کہ پیسے دو میں بھیک نہیں منگوائوں گی اب میرا دوست بولا بات ختم نہیں ہوئی تم اِس بچی کو پڑھا ئو گی اِس کا سار ا خرچہ میں برداشت کروں گا ‘ یہ بات سن کر ماں نے انکار کر دیا کہ میں یہ نہیں مان سکتی ہم ایک ٹھیکیدار کے ماتحت کام کر تے ہیں جس سے ہم نے ایڈوانس لے رکھا ہے ہم اُس کی مخالفت نہیں کر سکتے اور نہ ہی اِسکا باپ مانے گا ‘وہ کبھی بھی اِس کو سکول نہیں بھیجے گا چلو ہمیں اپنے خا وند کے پاس لے چلو ‘ماں کنفیوژ ہو چکی تھی بچی حیران نظروں سے ہمیں دیکھ رہی تھی اب میرے دوست نے اُس کے خاوند کو نو کری اور گھر کا خرچہ اٹھا نے کا وعدہ کیا تو وہ نیم رضامند ہو گئی۔
اگلے چوک پراُس کا خاوند گدا گری کر تا تھا اب ہم اُس کی طرف جا رہے تھے پہلے تو اُس کے خا وند نے صاف انکار کر دیا لیکن جب بیوی نے سمجھایا تو وہ بھی مان گیا اب میرے دوست نے بہت سارے پیسے انہیں دئیے ایڈریس لیا اور کہا اگلے دن میں والد اور بچی کو لینے آئوں گا تا کہ بچی کو سکول داخل کرا یا جا سکے ‘دوران گفتگو جب ماں باپ نے انکار کیا تو میرے دوست نے دھمکی بھی دی کہ آجکل گو رنمنٹ گداگروں کو پکڑ کر بند کر دیتی ہے اگر تم لوگوں نے میری بات نہ مانی تو میں تمہا را پیچھا کروں گا تمہا رے پو رے خاندان کو پکڑوا کر جیل بھجوا دوں گا اِس دھمکی کا اِن پر خا طر خواہ اثرہوا اگلے دن میرا دوست پھر میرے پاس آیا اور بولا میں جس مشن پر تھاوہ آج کامیاب ہو گیا میں ہر سال زکوة کے پیسوں سے ایسے ہی بچے اٹھا تا ہوں انہیں تعلیمی ادارے میںداخل کر اتا ہوں آج میں نے اُس بچی کو اچھے تعلیمی ادارے میں داخل کرا دیا جہاں پر ہاسٹل کی سہولت بھی مو جود ہے گھر والوں کو خرچہ بھی دے دیا پھر اُس نے موبائل میں اِس بچی کی تصویر دکھائی ‘نہا کر نئی یونیفارم اور کتابوں کے بیگ کے ساتھ وہ پری لگ رہی تھی اُسے دیکھ کر میری آنکھوں میں خو شی کے مو تی جھلملانے لگے میں نے دوست کو گلے سے لگا یا اور کہا دوبارہ کسی بچے کی تلاش میں نکلو تو مجھے بھی ساتھ لے جانا وہ مسکرایا اور چلا گیا لیکن جا تے جاتے میرے قلب و روح کو علم کی خوشبو اور نور سے معطر کر گیا۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org