تحریر : ضیا الرحمن دنیا میں آنا درحقیقت آخرت کیلئے رخت سفرباندھ کرجانے کی تمہیدہے اس عالم رنگ وبومیں آنے وا لاہرشخص نے موت کاجام پیناہے اور موت کے دروازے سے قبرمیں داخل ہوناہے ، اس فانی دنیاکی ظاہری چمک دمک، خوبصورتی محض ایک جلوہ سیراب ہے یہ دنیامرقع عبرت، افسانہ حسرت اور آئینہ حیرت کے روپ میں نظرآتی ہے،دنیاکے اس سٹیج پربڑے بڑے شہنشاہوں نے اپنے جاہ وجلال کے جلوے دکھائے، اس دنیا میں آنے والے اہل کمال نے اس کے فانی حسن کو چارچاندلگائے، ابحارالعلوم جنکے علوم سریہ ستارے کی بلندی کوچھواکرتے تھے ،جن کی ایک نظرنے انسانوں کوگمراہی کے اس پار سے اس پارکاراستہ دکھایا جن کے قلم کی نوک سے نقش کی صورت لکھی جانیوالی تحریرنے کیئوں کوسیدھے راستے پرگامزن کیا،وہ بھی اس فانی دنیاکی فنانیت میں کوچ کرگئے۔
خودوہ عظیم ہستی دانائے رسل، فخرالانبیا، خاتم المرسلین جسے جن وانس، شجروہجر،فرشتیوملائکہ سلام کرتے تھے اورجبرائیل خداکاسلام لیکرجس کی چوکٹ پرحاضری دیتاتھاوہ بھی اس دنیاکوداغ مفارقت دیگئے ۔موت ایک اٹل قانون قدرت ہیجس سے نہ کسی کواختلاف ہے نہ خلاف ہم ہرروزاپنے سرکی آنکھوں سے اس بات کامشاہدہ کرتے ہیں کہ کوئی نفس اس اٹل قانون سے استثنائیت نہ کرسکا ( این ماتکون یدرککم الموت ولوکنتم فی بروج مشیدہ) اگرکوئی کسی پتھرکی مظبوط چٹان کے اندرہی کیوں نہ ہوموت اس کووہاں بھی پالیگی۔
استاذالمحدیثین ،مدنی کے سوچ کی چلتی پھرتی تصویر،اکابرواسلاف کی نشانی مولانا سلیم اللہ خان صاحب کے جانیسے اہل علم شجرسایہ دارسے محرو م ہوگئے ،جب انکی وفات کی خبرسنی تودل بیقرارسالگا ،آنکھوں سے آنسوکی جھڑیاںبرسنے لگی کہ اتناعظیم سانحہ پھردل کویہ امیدویاس دلاکرسکوں دیاکہ یہ دنیافانی ہے، بیوفاہے کسی کے ساتھ وفانہیں کی یہاں بڑے بڑے افراد اس کی گودسے رحلت کرگئے لیکن زندگی میں دین کاعملی نمونہ پیش کرگئے جن کے لب ولہجہ میں اتنی شائستگی اور سوزوگداز ،پانی کی طرح روانی ،فصاحت وبلاغت ،تاثیرومثر ،ہرآنے اور سننے والے کے دلوں میں تسکین دیتی، کیئوں کودرس حدیث دیاکتنوں کی راہنمائی کی ہرہراداسے سنت کی جھلک ٹپکتی۔
ALLAH
کسی ولی اللہ نے بہت ہی خوبصورت جملے میں یوں نقشہ کھینچاتھاکہ جسکی ہرادامیں نبی کی سنت کی جھلک پائی جائے اس کی یہ سب سے بڑی کرامت ہے اورکامیابی کیلئے کافی ہے کیونکہ کہ زندگی کادارومداراسی پرہے ابھی امت کے اس رہبرکواپنے آخری آرام کی طرف روانہ کرکے سکون کی سانس نہیں لی تھی ،آنسوخشک نہیں ہوئے تھے کہ پیرطریقت مولاناعبدالحفیظ مکی بھی نظروں سے اوجھل ہوگئے تھوڑے وقفے بعدگنگوہی کے شاگرد بھی انڈیامیں داغ مفارقت دے گئے ان کے بعدصدرمجلس تحفظ ختم نبوت گجرات اسلم چستی اور مدینہ منورہ میں قاری القرا انور کی جدائی یکے بعددیگرے اسطرح جانادنیاسے علم کااٹھ جانااورقرب قیامت نہیں تو اور کیا ہے۔
بخاری شریف کی حدیث ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقاعلیہ السلام نے فرمایا کہ قرب قیامت علم اٹھالیاجائیگا اورفتنے ظاہرہوں گئے علم کااٹھ جانا اس صورت میں ہوگاکہ اہل علم یعنی علما کواٹھالیاجائیگافتنے فسادظاہرہوں گئے، قتل وغارت عام ہوجائے گی، انسانیت ظلم کی چکی میں پستی رہیگی ،مسلمان کثرت کے باوجود مغلوب ہوں گئے ،تلمیذمدنی خلیفہ مجازمولانازکریااور شاگردگنگوہی کایوں چلے جاناعلم کے اٹھ جانے سے کم نہیں یہ دووہ عظیم شخصیات تھی جوہرمذھبی جماعت کی سرپرستی فرماتی تھی چاہے وہ مفتی محمودکی سوچ کی امین ہوں یامشن حقنوازوحقوق اہلسنت کی علمبردارہو۔
اسامہ ملاعمرکے نظریات کی یلغارکررہی ہویامولاناالیاس کی سوچ کی ترویج ک راستے پرگامزن ہوں،ہرایک کوزندگی کے ہرموڑ پرلیڈکیاہے ،دست شفقت رکھاہے، راہنمائی کی ہے ان کایوں نظروں سے اوجھل ہوجانیسے مذھبی جماعتیں اپنے آپ کوبے سہارامحسوس کررہی ہیں۔ کسی بزرگ نے کیاہی خوب کہاتھا جسطرح آبادی بڑھنے سے بیزبان مخلوق آبادی کوچھوڑکرپہاروں کارخ کرتی ہیں اسی طرح جب زمانے میں قتل، فساد،فحاشی، عریانی، بے حیائی عام ہوجاتی ہیں توپاک روحیں دنیاسے پردہ کرجاتی ہیں۔ لگتے ہیں دن قیامت کے ہیں قریب آئے کہ نیک بندہ اک اک اٹھتاہی جارہاہے.