امام المرسلین، فخر الرسل، رحمت اللعالمین حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب کی سیرت کا مطالعہ اور ان کی مدح ہمیشہ سے ان کے امتیوں کا وصف رہا ہے – یہ ان سے عشق اور تڑپ کا نتیجہ ہی ہے کہ لکھنے والوں نے ایسا لکھا اور بیان کرنے والوں نے ایسا بیان کیا کہ وہ تمام امتی جو رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ پائے تھے انھیں بھی ایسا محسوس ہوا گویا وہ دور نبوی میں پہنچ گئے ہوں – وہ نبی جس کا استاد خود خدا ہو، جس کا مدرسہ وحی ہو اور جس کا علَم اس کا رحم و کرم ہو، اس رسول مکی پر کروڑوں درود و سلام کہ اس کے کائنات میں تشریف لانے پر صدیوں کی گمراہی اور لاعلمی سے انسانیت کو آزادی نصیب ہوئی – بقول مولانا محمد ولی رازی رح کے “وہ ولی مرسل کہ اس کا اسم” احمد” اللہ کا وحی کردہ ہے – وہ احمد مرسل کہ سالہا سال، اہل علم اس کی آمد کے لیے محو دعا رہے – وہ مرد کامل کہ روح اللہ (سلام اللہ علی روحہ) اسکی اطلاع لے کر آئے، وہ لمحہ موعود آ کے رہا – اور مکہ مکرمہ کی وادی اس کی آمد سے معمور ہو کے رہی ” یہ پیر کی سحر تھی جب رسول امم صل اللہ علیہ وسلم نے کائنات کی عظیم ترین عورت کو ماں کا درجہ دلوایا اور جن کے سامنے مشرق و مغرب روشن کر دیے گئے – ایسی بابرکت پیدائش کہ درد کے ماروں کو درماں مل گیا اور باطل کے محل فلک بوس ہونے لگے – آپ صل اللہ علیہ وسلم کے دادا نے آپکو دیکھا تو کہا، “الحمدللہ الذی اعطانی، ھذا الغلام الطیب الاردان قد ساد فی المھد علی الغلمان اعیذہ باللہ ذی الارکان حتی اراہ بالغ البنیان اعیذہ من شر ذی شنان من حاسد مضطرب العنان”
ہر طرح کی حمد ہے اللہ کے لیے کہ اک ولد طاہر و مسعود ہم کو عطا ہوا – وہ لڑکا کہ گہوارے ہی سے سارے لڑکوں کا سردار ہوا – اس لڑکے کو اللہ کے حوالے کر کے اس کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ اسکا سہارا ہو اور وہ اس کو ہر مکروہ امر سے دور رکھے اور اسکو عمر عطا کرے اور حاسدوں سے دور رکھے –
ہادی عالم صل اللہ علیہ وسلم کی آمد سے ہی باطل منہ کے بل گرنا شروع ہوا اور اندھیرے چھٹنے لگے – چونکہ آزمائشیں خدائے ذوالجلال کے بہترین بندوں کے لیے ہی ہوتی ہیں اور ان کی حکمت بھی وہی ذات جانتی ہے- اوائل عمری میں ہی والدہ اور دادا کی وفات نے گو کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کو مغموم ضرور کیا لیکن یہ بھی اللہ کی شان تھی کہ وہ ہر مادی سہارے سے اپنے حبیب کو دور کر کے صرف اپنے سہارے رکھنا چاہتا تھا – یوں وقت گزرتا رہا، پیش گوئی کرنے والے اپنی پیشگوئیاں کرتے رہے اور حق کے متلاشی ان کی کھوج میں رہے کہ وہ لمحہ مسعود آن پہنچا جس کی خبر سابقہ رسولوں کے ذریعے اہل علم کرتے چلے آئے تھے – عمر کا چالیسواں سال تھا کہ روح الامین تشریف لائے اور کہا “اقراء” چونکہ امام الانبیاء کسی مادی تعلیم گاہ کے شاگرد نہ تھے چناچہ انکا یہ جواب “ما انا بقارئٍ” فطری تھا – لیکن جس کا معلم خود خالق کائنات ہو وہ کیسے لا علم رہ سکتا تھا – چناچہ روح الامین نے حکم الہی سے انہیں بھینچا یہاں تک کہ رسول امی صل اللہ علیہ وسلم نے ” اقرا باسم ربک الذی خلق” پڑھا – اور پھر اسکے بعد وقفے وقفے سے یہ سلسلہ شروع ہو گیا – یہاں تک کہ سیدہ خدیجہ الکبری سے لے کر عمر ابن خطاب تک اور پھر انصار مدینہ تک یہ بابرکت کلام اپنے پورے رعب اور دبدبے سمیت پہنچا اور سبھی نے محمد عربی صل اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کو قلب و روح سے قبول کیا – لیکن یہ بات بھلا باطل کو کب ہضم ہوتی کہ لات و عزی کے مقابلے میں الاحد اور الصمد کی گرجدار پکار مکہ کی وادیوں میں گونجے –
جو آیا ہی نہ صرف آنے کے لیے تھا بلکہ پورے عالم پر چھا جانے کے لیے اور صدیوں کے چھائے اندھیروں کو مٹانے کے لیے تھا بھلا رب کریم اسے اور اس پر ایمان لانے والوں کو تنہا کیسے چھوڑ دیتا – بس پھر کہیں فاروق و حیدر کا ظہور ہوا اور کہیں ملائکہ اپنی پوری شان و شوکت سے نازل ہوئے – یوں بدر و احد و حنین سمیت ہر مشکل موقع پر نصرت خداوندی نے اپنے بندے اور رسول کو مزید بارعب بنا کر پورے خطہ عرب کو سوچنے اور سر نگوں کرنے پر مجبور کر دیا – یہاں تک کہ فتح مکہ کا موقع آیا اور پھر تاریخ نے رحم و کرم اور اعلی ظرفی کی وہ صورت دیکھی کہ جس کی مثال نہ کبھی ملی اور نہ مل سکے گی – “لا تثریب علیکم الیوم” کہنا اہل مکہ کو مزید شرمندہ کر رہا تھا – انہیں وہ مظالم وہ شر انگیزیاں اور وہ غرور رہ رہ کر یاد آ رہا تھاجو انہوں نے ہادی عالم صل اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کیے مگر رحمت اللعالمین کا یوں معافی دے دینا واقعی صرف رحمت اللعالمین کو ہی جچتا تھا – اور اس طرح فتح مکہ سے “وجا الحق و زھق الباطل” کا مطلب اہل مکہ کو خوب سمجھ آیا – یوں وہ رسالت کا روشن ستارہ پورے عرب پر ایسی آب و تاب سے چمکنے لگا کہ بیرون عرب بھی اسکی چمک و دمک لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے لگی – لیکن اس کائنات کا اصول ہے کہ جو یہاں آیا اسے جانا ہو گا – “الیوم اکملت لکم دینکم” کی وحی نے ہی چند اہل علم کو چونکا دیا تھا – آخر صفر یا ربیع الاول میں اللہ کریم کا ارادہ ہوا کہ اس کا پاکیزہ بندہ عالم مادی کی اصلاح کا کام مکمل کر کے اس سے آن ملے -” انک میت و انھم میتون” چونکہ حق سچ بات تھی لہذا مادی وجوہات کا ہونا نا گزیر تھا اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کی طبیعت علیل ہونا شروع ہوئی – درد کی شدت بڑھی اور بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “بل الرفیق الاعلی من الجنۃ” اور روح اس دار فانی سے پرواز کر گئی – و صل اللہ علی صادق الوعد الامین –
وہ پاکیزہ ہستی جو مدح ممدوح یزداں ہو اور جسے اللہ کریم نے “ورفعنا لک ذکرک” کہہ کر گویا تمام عالم کو اسکا تابع کر دیا ہو اس کی تعریف جن و انس بھلا کیا کر سکتے ہیں؟ جسے مشرکین بھی صادق اور امین کہنے پر مجبور تھے اور بے پناہ دشمنی کے باوجود ابو سفیان شاہ حبشہ کے دربار میں جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکا – اس نبی صل اللہ علیہ وسلم کو ان کے عاشقین کچھ یوں بیان کرتے ہیں – حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں “رأيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في ليلة إضحيان، فجعلت أنظر إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و إلي القمر، و عليه حلة حمراء، فإذا هو عندي أحسن من القمر” ’’ایک رات چاند پورے جوبن پر تھا اور اِدھر حضور ﷺبھی تشریف فرما تھے۔ اُس وقت آپ سرخ دھاری دار چادر میں ملبوس تھے۔ اُس رات کبھی میں رسول اللہ کے حسنِ طلعت پر نظر ڈالتا تھا اور کبھی چمکتے ہوئے چاند پر، پس میرے نزدیک حضور چاند سے کہیں زیادہ حسین لگ رہے تھے۔‘‘ (ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 118) جہاں “واحسن منک لم ترقط عینی و اجمل منک لم تلد النسا، خلقت مبرا من کل عیب کانک قد خلقت کما تشاء” جیسے الفاظ میں رسول امین کی مدح سرائی ہو اور جہاں “بلغ العلی بکمالہ کشف الدجی بجمالہ حسنت جمیع خصالہ صلو علیہ و آلہ” جیسے کلام موجود ہوں – جہاں قصیدہ بردہ اور “اج سک متراں دی ودھیری ہے کیوں جنڈری اداس گھنیری ہے” ہو بھلا وہاں کسی تعریف کی کمی محسوس ہو سکتی ہے کیا؟ لیکن خیر الامم کی شخصیت و کردار ایسا اعلی و ارفع تھا کہ یہ تعریف بھی شاید ان کے سامنے ادھوری دکھائی دیتی ہے – مدح رسول بزبان امت رسول تو ہمیشہ سے موجود ہے اور موجود رہے گی – مولانا قاسم نانوتوی ؒ فرماتے ہیں، “جو تو اسے نہ بناتا تو سارے عالم کو، نصیب ہوتی نہ دولت وجود کی زنہار، وہ فخر کون و مکاں،زبدہ زمین و زماں امیر لشکر پیغمبراں، شہہ ابرار جہاں کے سارے کمالات ایک تجھ میں ہیں ترے کمال کسی میں نہیں مگر دو چار” – جبکہ قاضی عبد المقتدر اس حسن و جمال کا تذکرہ کچھ یوں کرتے ہیں، “لہ الجمال اذا ماالشمس قد نظرت الیہ قالت الا یا لیت ذلک لی” ہمارے آقا صل اللہ علیہ وسلم حسن و جمال کا ایسا پیکر ہیں کہ جب سورج ان پر نظر ڈالتا تو حسرت بھری نگاہوں سے کہتا اے کاش!یہ حسن مجھے عطا ہوتا – اتنا ہی نہیں عشق رسول میں مسحور ہو کر سید نفیس شاہ صاحب ؒفرماتے ہیں،” تیرا سکہ رواں کل جہاں میں ہوا، اس زمیں میں ہوا،آسماں میں ہوا کیا عرب،کیا عجم سب ہیں زیر نگیں تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں”
یہاں تک کہ سید السادات اور فخرالانبیاء کی باطل بھی تعریف کیے بنا رہ نہیں سکا اور بے پناہ دشمنی اور شدید نفرت کے باوجود اہل مغرب کے لاتعداد دانشوروں نے بے ساختہ رسول عربی صل اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں لکھا – چناچہ دلائی لامہ، ایڈورڈ گبن، لین پول، برنارڈ شاہ، مائکل ایچ ہارٹ، نپولین بونا پارٹ اور گاندھی سمیت بے شمار غیر مسلم لیڈر اور فلاسفر آپ صل اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں – فرانسیسی مفکر الفانسے ڈی لیمرٹائن کہتا ہے، “محمد صل اللہ علیہ وسلم فلاسفر، خطیب، پیغمبر، قانون دان، جرنیل اور روحانی مملکت کا بانی وہ شخص ہے جسے عظمت کے تمام پیمانوں پر جانچنے کے بعد یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا اس سے بھی زیادہ عظیم دنیا میں کوئی اور ہے؟” (Histoire de la Turquie, Paris 1854, Vol II, pp. 276-77:) اسی طرح مشہور مؤرخ سٹینلے لین پول کے مطابق” وہ (صل اللہ علیہ وسلم) سب سے زیادہ وفادار محافظ انکا تھا جن کی اس نے حفاظت کی – گفتگو میں سب سے زیادہ خوش اخلاق اور متفق کرنے والا – جو اسکے قریب آئے اس کے عاشق ہوئے، اور جنہوں نے اسے بیان کرنا چاہا ان کے مطابق ہم نے ان سا نہ پہلے کبھی دیکھا اور نہ بعد میں دیکھیں گے – وہ اتنا مکمل اور بامعنی بولتا کہ کوئی بھی اس کے کہے کو بھلا نہ سکتا تھا” (Table Talk of the Prophet) بوزورتھ سمتھ کے الفاظ میں” وہ(صل اللہ علیہ وسلم) ایک وقت میں قیصر اور پوپ تھا لیکن وہ پوپ تھا بنا پوپ کے دکھاوے کے، قیصر تھا بنا لشکر قیصری کے – وہ بنا فوج کے، بنا محافظوں کے، بنا محل کے اور بنا کسی آمدن کے یہ سب تھا – اگر کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خدائی حکم پر حکومت کرے تو وہ سوائے محمد صل اللہ علیہ وسلم کے کوئی نہیں ” ( Mohammed and Mohammadanism, London 1874, p. 92:) تھامس کرائل کے الفاظ میں” کیسے ایک انسان نے وحشی قبائل اور بدوؤں کو سب سے طاقتور اور مہذب قوم بنا دیا – ایک خاموش روح جو کہ دنیا کو روشن کرنے آئی دنیا بنانے والے کے حکم پر” ( Heros and Heros Worship)
گو کہ جس کی تعریف خود خدا نے کر دی ہو اسے اہل مغرب کے تعریفی کلمات کی ضرورت نہیں لیکن اسکے باوجود وہ لوگ آپ صل اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار سے متاثر ہونے پر مجبور ہو گئے –