مشکلات میں گھری جمہوریت

Democracy

Democracy

تحریر:پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں

دھرنوں کا چہلم ہوچکا۔”رہنما”مگر کسی موہوم اُمید کے سہارے اب بھی دھرنوںکی سڑی بُسی متعفن لاشیں کندھوںپہ اُٹھائے پھررہے ہیں۔ دراصل دھرنے والوںکو تویقین دلا دیا گیا تھاکہ اُن کے آزادی،انقلاب مارچ کے گوجرانوالہ پہنچنے سے پہلے ہی میاںبرادران کی سیاسی بساط لپیٹ دی جائے گی اوروہ سمجھ بیٹھے تھے کہ موسمِ گُل قریب آلگااورشاخِ اُمیدپھل پھول لانے کوہے لیکن پارلیمنٹ کی جانب سے ایسی بادِسموم چلی کہ اُن کی اُمیدوںکا چمن اُجڑکے رہ گیا۔آس یاس میںڈھل گئی اوراُن کی کتابِ سیاست کے اوراق پرسوائے نااُمیدیوںکی آڑی ترچھی لکیروںکے کچھ باقی نہ بچا۔ اب وہ بزبانِ شاعرکہتے پھرتے ہیں کہ

بے معنی،بے کیف ہوئی ہے آنکھ مچولی تاروںکی
نکلاچاندبھی گہنایاہے سازش سے اندھیاروںکی

میںیہ تونہیںکہتاکہ”اِس طرح توہوتاہے ،اِس طرح کے کاموںمیں”لیکن یہ ضرورکہ انا،ضد،نرگسیت اورلفظوںکی زہرناکی کا یہی انجام ہوتا ہے جوکپتان صاحب کاہوا اورہورہاہے۔خاںصاحب یہ توضرورجانتے ہونگے کہ قوم نے اُن کی پکارپرمحض اِس لیے لبیک کہاکہ نوابوں، وڈیروں، جاگیرداروں، صنعتکاروں اور سرمایہ داروںک ے ذاتی مفادات کے گردگھومتی”پاکستانی جمہوریت”سے لوگ بے زارہوچکے تھے۔وہ ایسی جمہوریت چاہتے تھے جو مطلق العنانی کوجَڑسے اکھاڑکر”جمہور”کی حکمرانی قائم کرسکے۔

وہ ایسی متعفن جمہوریت نہیںچاہتے تھے جواشرافیہ کے گھرکی باندی اور دَرکی لونڈی بن کے رہے۔جب خاںصاحب نے اُنہیںایسی ہی جمہوریت کے سندرسپنے دکھائے توقوم ،خصوصاََنوجوانوںنے اُنہیںیک لخت آسمان کی رفعتوںتک پہنچا دیا۔اُن دنوںخاںصاحب کے شدیدترین مخالف تجزیہ کاروںکے قلم بھی اُن کے خلاف کچھ لکھنے سے پہلے تھرتھرانے لگتے تھے ۔تب واقعی قوم یہ سمجھنے لگی تھی کہ اُسے بالآخرایک ایسا رہنمامل گیاجواُن کے دُکھ سُکھ کاساجھی ہوگا۔

لیکن عمران خاںکی مقبولیت کایہ گراف الیکشن سے بھی پہلے اُس وقت دَم توڑگیاجب تحریکِ انصاف میں وہی لوٹے،لُٹیرے اوردیمک زدہ چہرے دھڑادھڑشامل ہونے لگے جن پر نگاہ پڑتے ہی”اُبکائیاں”آنے لگتی ہیں۔تب ہرطرف سے صدائیںبلندہونے لگیںکہ ”یہ بازومیرے آزمائے ہوئے ہیں”۔پھر2013ء کے انتخابات ہوئے۔نتیجہ تجزیہ نگاروںکے عمومی تجزیوںاوربین الاقوامی سرویزکے عین مطابق آیا۔خاںصاحب نے میاںصاحب کوکامیابی پرمبارک باددی اورمیاںصاحب نے شدیدترین مخالفت کے باوجودخیبرپختونخواکی حکومت تحریکِ انصاف کاحق قراردے دیا۔تب قوم شادماںکہ جمہوریت پٹری پرچڑھ گئی۔

لیکن خاںصاحب کے مدح سراتواُنہیںالیکشن سے بہت پہلے یقین دلاچکے تھے کہ وہ دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہونگے اِس لیے کپتان صاحب یہ شکست ہضم نہ کرپائے۔خاںصاحب کی اسی بے چینی نے اُنہیںاُس”سازش”کااسیربنادیاجس کے تانے بانے لندن میںبنے گئے اوروہ ایسی تاریک راہوںپہ چل نکلے جن کی کوئی منزل نہیںہوتی۔لندن میںہونے والی عمران قادری ملاقات کوسابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ ایسی عالمی سازش قراردیتے ہیںجس میںامریکہ،برطانیہ اورکینیڈاشامل تھے۔

Imran Khan ,Tahir ul Qadri

Imran Khan ,Tahir ul Qadri

وہ کہتے ہیں”سازش کرنے والے چاہتے تھے کہ فوج مداخلت کرکے اقتدار پر قبضہ کرلے ۔عمران خاںاورطاہرالقادری کوسازش پرعمل کے صلے میںاقتدارکالالچ دیاگیالیکن جنرل راحیل شریف نے تمام سازش ناکام بنادی”۔جنرل(ر)اسلم بیگ نے یہ بھی کہاکہ عسکری قیادت کواِس سازش کاپہلے سے علم تھا۔اگرجنرل راحیل شریف فیصلہ کرنے میںدیرکرتے توملک کابڑانقصان ہوتا۔اُنہوںنے کہا” امریکہ خطے میںاپنی شکست کاانتقام پاکستان میں انتشار پھیلا کر لینا چاہتا ہے۔

جنرل صاحب کی باتوںپراِس لیے بھی یقین کرنے کوجی چاہتاہے کہ ایک توتحریکِ انصاف کے صدرجاویدہاشمی پہلے ہی اِس سازش کے بارے میںبہت سے انکشافات کرچکے ہیںاوردوسرے عمران خاںصاحب اگرامریکی پالیسیوںکے اتنے ہی مخالف ہیںتوشاہ محمودقریشی کیوںباربارامریکی سفیرسے خفیہ ملاقاتیںکرتے رہتے ہیں۔یہ سازش کوئی ایسی خفیہ بھی نہیںتھی کیونکہ اِس کاوزیراعظم صاحب کوبھی بہت پہلے علم ہوچکاتھااورشنیدہے کہ اُنہوںنے مکمل ثبوتوںکے ساتھ آرمی چیف کواِس سے آگاہ بھی کردیاتھا۔

یہ مانے بناکوئی چارہ بھی نہیںکہ خاںصاحب اورقادری صاحب کوواقعی یقین دلادیاگیاتھاکہ فوج کے مضبوط ہاتھ اُن کی پشت پرہیںاور”اقتدار”اُن کا منتظر۔ ہونگے”کچھ”اپنی خواہشوںکے اسیرریٹائرڈجرنیل اورشیخ رشید، چودھری برادران جیسے ناکام سیاستدان جنہوںنے خاںصاحب اورعلامہ قادری کویہ یقین دہانی کرائی لیکن وہ جنرل راحیل شریف کی جمہوریت نوازی کوشکست نہ دے سکے۔ جب آئی ایس پی آرکی طرف سے بارباریہ کہاجانے لگاکہ فوج سیاسی معاملات میںہرگزمداخلت نہیںکرے گی تو خاںصاحب نے بھی امپائرکی انگلی اُٹھنے کاتذکرہ چھوڑکریہ کہناشروع کردیاکہ عدلیہ سے کوئی اُمیدہے نہ فوج سے،جوکچھ کرناہے عوام نے ہی کرناہے۔

آسکروائلڈنے کہا”کس قدرافسوس ناک بات ہے کہ زندگی کے سبق ہمیںاُس وقت ملتے ہیںجب وہ ہمارے لیے بیکارہوجاتے ہیں”۔خاںصاحب کوبھی اُس وقت پتہ چلا”جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔ جب وہ بہت کچھ گنواچکے اور دھرنا”دھرنی”میں بدل گیا تب افسوس ،ندامت اورشکست کے شدیداحساس نے بوکھلائے ہوئے خاں صاحب کو ایسا ضدی شخص بنادیاجس نے” غیرپارلیمانی” زبان کی انتہا کردی۔ اُدھر میاںبرادران نے بزدلی کے طعنے سہہ لیے لیکن صبرکادامن ہاتھ سے نہ چھوڑااورمذاکرات پرزوردیتے ہوئے خاںصاحب کویہی پیغام بھیجتے رہے کہ

بجاکہ ایک تُندخوہوتُم ہزاروںمیں
ملاہے ظرف ہمیںبھی سمندروںجیسا

میاںبرادران ایسے کبھی نہ تھے لیکن شایدوہ جلاوطنی کی بھٹی میںتَپ کرکُندن بن چکے ہوں۔اگرایساہے تویہ قوم کی خوش نصیبی ہے لیکن اگروہ یہ سب کچھ وقتی مصلحت کے تحت کررہے ہیںتوپھرجمہوریت کااللہ ہی حافظ ہے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر:پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں