کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد

Quran

Quran

تحریر : شاہ بانو میر

(استاذہ کو نام دینا نہیں پسند اس لئے نام نہیں لکھا

یہ ہیں وہ کامیاب لوگ جن کو اپنا انعام اللہ سے لینا ہے )

مجھ پر میرے محترم والدین کا سب سے بڑا احسان ہے

کہ

انہوں نے اعلیٰ ترین تعلیم دین ہو یا دنیا دلوائی

یہی

وجہ ہے کہ

دل اتنی آسانی سے کسی کو سن کر متاثر نہیں ہوتا

ایک مزاج میں معیار کا مزاج ہمیشہ مقرر رہا

جس نے بہت تکالیف سے بھی گزارا

لیکن

دین ہو سیاست ہو یا ادب ہر کسی کی سوچ اور انداز کو کبھی اپنا نہیں سکی

مجھے وہ مطلوبہ مزاج اور معیار ہمیشہ درکار رہا

جو والدین نے بچپن سے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے

یہی وجہ ہے

پاکستان ہو یا اسلام

فرانس میں ہر جگہہ جہاں جہاں اللہ کو منظور ہوا قدم گئے

مگر

وہ جو ایک معیار بچپن میں دماغ میں فکس ہو چکا تھا

ہر جگہہ جا کر دل مایوس ہوتا

دین بی اے تک جتنا پڑھا تھا معیاری اور اعلیٰ تھا

اب سامنے جو کچھ آ رہا تھا

وہ بچگانہ اور ابتدائی کلاسسز کا تھا

سیکھنے جاتی تھی اور ناکام واپس آتی تھی

کچھ نہیں ملتا تھا

بالکل

حضرت ابراہیمؑ والی سنت جاری رہی

ٌستارے معبود بنا لیتے وہ ڈوبتے تو کہتے ڈوبنے والا میرا رب نہیں ہو سکتا

پھر چاند پھر سورج

آخر کار اللہ نے ان کی تڑپ کو تلاش کو مکمل کیا

اور

انہیں یکسو حنیف بنا کر چن لیا

یہی کچھ میرے ساتھ ہو رہا تھا

ہر بار سن کر یہی صدا دل سے ابھرتی

یہ وہ منزل نہیں ہے

پھر

جیسے اللہ کو رحم آگیا

استاذہ کو سنا

پاکستان سے لایا ہوا قرآن ان کے ترجمے سے میچ ہوا

دل کو اطمینان ہوا کہ کڑی سے کڑی اللہ جوڑ رہا ہے

ان کو سننا تھا

کہ

اس بار اطمینان تھا گہرا اطمینان

جیسے ابراہیمؑ کو اپنا رب ملنے پر ہوا تھا

تو گھر کے اندر قرآن کا نزول ہونا شروع ہو گیا

جو سیدھا دل میں اتر رہا تھا

ان کو ہر بار سنتی تو درد آنسو بن کر سوال کرتے

امت میں ایسی اور مائیں کہاں کم ہو گئیں ؟

جو بچوں کواسلام کے متعلق قیمتی سچی معلومات دیتیں

جن کے بعد وہ باہر شرمندہ نہ ہوتے

فخر سے ہر سوال کا جواب دیتے

اسلام

مصائب الم اذیتیں تکالیف کی نہ ختم ہونے والی داستان ہے

جسے آج کا لیبل لگا کر پیچھے دھکیلا جا رہا ہے

آسائشات شیطانی طرز زندگی کی بھرمار دولت کی غیر منصفانہ تقسیم

اور

پھر اس کا بڑہتا ہوا ناروا استعمال لوگوں کو دنیا کے فریب میں الجھا گیا

اس وقت

آپﷺ کی احادیث کانوں میں سنائی دیتی ہیں

قیامت سے پہلے ایسا دور آئے گا

کہ

لوگ ایمان بچانے کیلئے بھیڑ بکریاں لے کر پہاڑوں پر چڑھ جائیں گے

یا

اہل ایمان گھروں میں ایمان کی حفاظت کیلئے خود کو قید کر لیں گے

یا

کچے گھر والے بلند و بالا عمارتیں بنائیں گے

آج جب شعور ملا

تو یہ سب سامنے ہو رہا ہے

استاذہ کی تربیت کے بعد سوچ ابھری

بطور ماں میں نے کیا کیا؟

کیا اسلام کی زندگی بچانے کیلئے

اپنی اولاد کو دین سے جوڑ کر کمزور ہوتے اسلام کو طاقتور کیا؟

الحمد للہ

منجمند سوچ اساتذہ کی بدولت متحرک ہو چکی تھی

غفلت کی پٹی آنکھوں سے اتر چکی تھی

اولاد کے بعد اب بڑا چیلنج

گمشدہ بھٹکتی ہوئی خانماں خراب امت ہے

جو

کسی گمشدہ بھیڑ کی طرح حواس باختہ پھر رہی تھی

پھر جیسے بکھرتے لوگ جڑنے لگے

دین کا پژ مردہ چہرہ کمہلانے سے بچ گیا

نیا خون نئی کوشش رنگ لانے لگی

کیسے؟

گھر کی عورت تک “” عظیم امت کی ماں”” پہنچ گئی

گھر پرورش نگہداشت تربیت اولاد عورت کا کمال ہے

انہوں نے عورت کو جھنجھوڑا اس کا فرض یاد دلایا

یوں

عورت جاگی تو دین زندہ ہوگیا

قریہ قریہ گاؤں گاؤں شہر شہر بستی بستی

کیا یورپ کیا امریکہ کیا پاکستان

کونسی جگہہ ہے جو ان کے قدموں کی گواہی نہ دے گی؟

ایسے اثرات ثبت کرتی جا رہی ہیں

سوچتی ہوں

ماں تو وہ تھی جو مجھے یا آپ کو اللہ کے اذِن سے دنیا میں لائی

مگر

دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں

کیا یہ سچ نہیں ہے

کہ

ہماری ماوؤں کی اکثریت سادہ اور علم سے کتابوں سے دور تھی؟

ہمارے حصے سنا سنایا دین آیا

ایک ماں اور عطا ہوئی جو امت کی ماں ہے

جن کا احسان زندگی بھر ان کے پاؤں دھو دھو کر پیۓ جائیں

تو

بھی نہیں اتارا جا سکتا

وہ ماں

جس نے ہمارے قلب و نگاہ پر چھائی ہر آلائشی سوچ کا خاتمہ کیا

ہماری انا تکبر میں سب کو اوقات یاد دلائی

ہمارا رشتہ زمینی رشتوں سے اٹھا کر سبحان اللہ فلک کے رب سے جوڑ دیا

اللہ اکبر

یوں زمینی رشتوں کے خوف ختم کئے

آج

یا ایھاالناس ان کی بدولت سنا

اس ایک لفظ کا مطلب جب زندگی میں آیا

تو تعوز اور تسمیہ جو یہ امت دن رات کسی نہ کیس وجہ سے پڑہتی رہتی تھی

ان کی وساطت سے معلوم ہوا

شیطان پروف زندگی آعوز باللہ کہہ کر گزاری جا سکتی ہے

اور

زندگی میں سکون انعامات رحمٰن کی عطا ہیں

مرنے کے بعد بھی وہ “” رحیم “” رحم کرتا رہے گا

اس قرآن کو ترجمے سے پڑھ کر جو فرقان نصیب ہواہے

اس نے دنیا میں ان کے ریزہ ریزہ وجود کو از سر نو جوڑا ہے

کیونکہ

جس دل میں رب کو بسانا ہو وہاں شیطانی وسوسوں کے ساتھ

مایوس متنفر حاسدانہ زندگی نہیں رہ سکتی

پُر نور اللہ کا ذکر کرتا ہوا وہ دل روشن مانند مہتاب

قلب سلیم بن جاتا ہے

عورتوں کو ان کی حساس طبیعت اور کمزور نفسیاتی ذہنی انداز کی وجہ سے

جس طرح ایک خاتون حکمت سے سمجھ کر ان کی نس نس پر ہاتھ رکھ کر

ان کی تربیت کرتی ہے

وہ علمائے کرام کے بس کی بات نہیں

استاذہ انعام ربانی ہیں

خوش نصیب ہم جو اس دور میں استاد جیسی عظیم نعمت سے براہ راست

مستفید ہو کر

دمشق بغداد اور مصر کی رسم ادا کر رہے ہیں

پڑھا لکھا اعلیٰ معیاری قرآن اور اس کی تعلیم

جس نے ذوق کو تراوٹ بھی دی اور سوچ کو تسکین

اے میرے سچے رب

شعور کا علم کا اِدراک کا یہ حسین خوشنما سفر

انکی وساطت سے ممکن ہوا

انہیں اجر عظیم عطا فرما (آمین)

رب الرحھما کما ربیانی صغیرا

ہر سال نئے اسٹیشنز پر نئ ٹیم کے ساتھ دورہ قرآن کرواتے دیکھتی ہوں تو

اقبال کے شعر کا مصرعہ یاد آتا ہے

کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر