معروف انشائیہ نگار تمنا مظفر پوری کا انتقال، پٹنہ میں تدفین

پٹنہ : ممتاز ادیب اورانشائیہ نگار تمنا مظفر پوری کا آج تقریباََ 11بجے دن میں طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا ۔وہ 70برس کے تھے۔ ان کی نماز جنازہ اتوار کو صبح آٹھ بجے سمن پورہ میں دانش اپارٹمنٹ کے احاطہ میں ادا کی گئی اور تدفین ویٹنری کالج کے قریب قبرستان میں عمل میں آئی۔

یہ اطلاع پرائیوٹ اسکول اینڈ چلڈرن ویلفیر ایسو سی ایشن کے قومی صدر سید شمائل احمد نے دی ہے۔ تمنا مظفر پوری کا اصل نام اسرار احمد تھا ۔ ان کی پیدائش 17نومبر1943کو محمد پور مبارک ضلع مظفر پور میں ہوئی تھی۔ ان کے والد حضرت جنداہا (ویشالی) سے ہجرت کر کہ وہاں بس گئے تھے۔

ان کا سلسلہ نسب سترہویں صدی کے مشہور بزرگ حضرت مخدوم شاہ علی شطاری رحیم اللہ سے ملتا ہے۔ تمنا مظفر پوری رام دیالو سنگھ کالج سے بی اے کی ڈگر حاصل کرنے کے بعد بہار اسٹیٹ سوگر کارپریشن میں بحیثیت لیبر ویل فیر آفیسر مقرر ہوئے جہاں سے وہ نومبر 2003میں سبکدوش ہوئے۔1966میں شایہنہ خاتون بنت سید جمیل احمد سے ان کی شادی ہوئی۔ اس کے بعد وہ پٹنہ سے ان کا مستقل تعلق ہوگیا۔

1995میں یہیں انہوں نے اپنا ذاتی گھر بھی بنا لیا جہاں انہوں نے آخری سانس لی۔ تمنا مظفر پوری کو تصوف اور علم و ادب کا ذوق وراثت میں ملا۔ ان کے والد سید محمد عمردراز خود شاعر تھے ۔کہا جاتا ہے کہ تمنا مظفر پوری نے پہلی مرتبہ ولی منزل پٹنہ کی ایک ادبی نشست میں اپنا طنزیہ مضمون سنایا اس کے بعد یہ سلسلہ چل پڑا۔

پٹنہ کی ادبی محفلوں اور سیمیناروں میں بھی جب تک ان میں صلاحیت تھی وہ شرکت کرتے رہے۔ انجمن ترقی اردو بہار سے بھی ان کا گہرہ تعلق تھا ۔ وہ تحریک اردو کے ایک مضبوط سپاہی بھی تھے۔ انہوں نے طنز و ظرافت کے علاوہ ڈرامہ نگاری اور ادب اطفال سے بھی اپنا رشتہ جوڑا اور شہرت حاصل کی ۔ابھی حال ہی میں بہار اردو اکادمی نے ان کی کتاب ”عقل مند بچے ”کو انعام سے نوازا ہے۔

تمنا مظفر پوری کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں ظرافت اور چند ظریف ہستیاں ، تمنا پنچ، پردے کے سامنے، الٹے قلم سے، کلیات احرار خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اسی سال ان کے تنقیدی اور تحقیقی مضامین کا ایک مجموعہ” تحقیقی و تنقیدی آفاق” شائع ہوکر منظر عام پر آیا ہے۔ تمنا مظفر پوری کے انتقال پر اردو کی کئی ادبی اور لسانی تنظیمو ں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور ان کے انتقال کو اردو ادب کا ایک عظیم خسارہ قرار دیا ہے۔

تحریک اردو صدر محمد کمال الظفر ، جنرل سکریٹری ڈاکٹر ریحان غنی ، سکریٹری سید رضا حسین شمشاد، جوائنٹ سکریٹری احمد رضا ہاشمی، مظہر عالم مخدومی ، ترجمان محمد عارف انصاری اور اراکین حافظ رضوان الحق عسکری، شاہ فیض الرحمن اور سہیل شمشیر نے ایک مشترکہ تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ تمنا مظفر پوری اردو کے خاموش خادم تھے ۔اردو ادب سے انہیں گہرالگائو تھا۔

تمنا مظفر پوری انشائیہ نگار کے علاوہ محقق اور نقاد بھی تھے ۔ان کے انتقال سے اردو زبان و ادب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ دانش مرکز رجسٹرڈ کے جنرل سکریٹری اور نئی تشکیلات کے شاعر قوس صدیقی ، بزم دوستاں کے روح رواں معین کوثر ، اردو کانسل ہند کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر اسلم جاوداںاور کاروان ادب حاجی پور کے جنرل سکریٹری انوار الحسن وسطوی سمیت اردو تحریک اور اردو ادب سے تعلق رکھنے والے کئی لوگوں نے بھی تمنا مظفر پوری کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔