تحریر : محمد اشفاق راجا گذشتہ سال نومبر میں ایک بھارتی گروپ نے برطانوی عدالت میں درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ مشہورِزمانہ کوہِ نور ہیرا واپس کیا جائے جوٹاور آف لندن ، تاج میں جڑا ہوا ہے۔یہ ہیرا برطانیہ نے برصغیر میں جو لوٹ کھسوٹ کی تھی ،اْس کا حصہ تھا،اب انصاف کا تقاضا ہے کہ اْسے واپس کیا جائے۔ ایک ماہ کے اندر ایک پاکستانی بیرسٹر نے درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ پاکستان کو ہیرا واپس کیا جائے۔آخرکار یہ ہیرا برطانیہ نے لاہور سے لیا تھا اور لاہور پاکستان کا حصہ تھا۔واضح رہے کہ صرف یہی دو ممالک نہیں ہیں جو ہیرے کے دعوے دار ہیں بلکہ بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ نے بھی ہیرے کی ملکیت کا اشارہ دیا ہے۔ برطانوی عدالت نے انکار کیااس سے پہلے بھی وہ باربار انکار کر چکے ہیں۔ ڈیوڈ کیمرون کے بھارت کے دورہ کے دوران جب ہیرے کی واپسی کی افواہیں گردش کررہی تھیں تو اْسے یہ کہنا پڑا کہ وہ ہیرا واپس نہیں کریں گے۔ایک بار پھر یہ مطالبہ شہزادہ ولیم او ر کیٹ میڈلٹن کے دورہ کی ہلچل کے دوران منظرِ عام پر آیا تھا۔ تاہم اس وقت یہ دکھائی دیتا ہے کہ بھارتی حکومت کو کہا گیا ہے کہ وہ ہیرے سے متعلق اپنے موقف کو واضح کرے اور پوزیشن پر نظر ثانی کرے۔
بھارتی وزارتِ ثقافت کی طرف سے ایک بیان آیا ہے” جیسا کہ آزادی سے پہلے یہ ہیرا ملک سے لے لیا گیا تھا ،اس لیے بھارت کے آثارِ قدیمہ کا ادارہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اس معاملے پر کچھ عملدر آمد کرسکے” بھارت کی اعلیٰ عدالت نے ابھی تک اْس درخواست کا فیصلہ نہیں دیا جو کہ بھارت کے انسانی حقوق کے ادارے کی طرف سے دائر کی گئی جس میں بھارتی ہائی کمیشن کو کہا گیا کہ برطانیہ سے ہیرے کی واپسی کا مطالبہ کرے۔اس گروپ نے دیگر چیزوں کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا تھا جس میں ٹیپو سلطان ،بہادر شاہ ظفر ،جھانسی کی رانی ،نواب میراحمد علی باندہ اور دوسرے برصغیر کے حکمرانوں کی انگوٹھی ،تلوار اور دوسری چیزیں شامل تھیں۔ ،قطع نظر اس کے کہ بھارتی عدالت کچھ بھی فیصلہ دے لیکن اس کا کوئی امکان نہیں لگتا کہ برطانیہ کسی بھی ملک کو کوہِ نور واپس کرے۔انگریزوں کی کمال ذہانت یہ تھی کہ اْنہوں نے اپنے جانے کے بعد اپنی نو آبادیوں کو اندرونی خلفشار کا شکار کر دیا تاکہ وہ ان کا مقابلہ نہ کرپائیں۔
کوہ نور ہیرا بھی ایک ایسا ہی قصہ ہے۔اس طرح وہ کہہ سکتے تھے کہ کوہِ نور ہیرے اور دوسری چیزوں کی حفاظت کے لیے ان کے پاس محفوظ جگہ ہے۔ بھارتی اور پاکستانی،بنگلہ دیشی اور جنوبی افریقی اپنی اندرونی لڑائیوں میں بہت زیادہ مصروف تھے،وہ غیر مستحکم تھے اوریہ کیسے ممکن تھا کہ اْن کے کرپٹ حکمرانوں کی خواہشات پر اْن کی تاریخ اْن کے سپرد کردی جائے یا کم ازکم وہ قیمتی نوادرات جو اْن کے اپنے تھے۔مودی کا انڈیا ،مسلمانوں کے خزانے کو کتنی عزت دیتا؟اور بدلے میں پاکستان ہندئوں اور بدھ مت کے قیمتی نوادرات کی حفاظت میں کس حد تک دلچسپی لیتا؟ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ معاملہ کیسے حل ہو گا؟کوہ نور نمائندگی کا ایک اچھا معاملہ ہے جس کا دارومدار جھوٹی گواہی اور چوری سے لے کر مرکزیت پر ہے کہ کون اس کا دعوے دار بنے گا۔ جوہیرا کبھی بابر کا کہلاتا تھا،وہ کچھ عرصہ مغلوں کے پاس رہا،شاہجہاں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اس میں سے تاج محل کو دیکھنے کا آرزومندتھا۔جیسے ہی مغلوں کی حکومت ختم ہوئی ،کوہِ نور نادر شاہ کی لوٹ مار کے ساتھ ایران واپس چلا گیا۔
Maharaja Ranjit Singh
آخر کار مہاراجہ رنجیت سنگھ نے امن کا ثالث بن کرافغان حکمران شاہ شجاع سے اس کا ہتھیا لیا۔ اگرچہ کوہِ نور مختلف قسم کی افواہوں کا شکا رتھا کہ جو مرد اس کو پہنتے ہیں ،اْن پر منحوسیت طاری ہوجاتی ہے۔مہاراجہ رنجیت سنگھ نے تعویز کے طورپر بازو میں باندھ لیا،یہاں تک کہ اس کا اقتدار زوال کا شکا رہو گیا۔کوہِ نور ہیرا لاہور سے ہوتا ہوا لندن چلا گیا اور ملکہ وکٹوریہ کی ملکیت بن گیا ،جو کہ انڈیا کی مہارانی تھی،حالانکہ اس نے کبھی انڈیا کا سفر ہی نہیں کیا تھا۔ لوٹی ہوئی اشیا پر تصرف صرف برطانیہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازی آفسیروں نے لاکھو ں ڈالر مالیت کی اشیا پر قبضہ کیا تھا ،اس کے علاوہ ہٹلر کی فوج نے نہ صرف یہودیوں کی انفرادی اشیا بلکہ میوزیم اور آرٹ گیلریز پربھی قبضہ کر لیا تھا۔ اس حوالے سے بہت کوششیں شروع کی گئیں کہ یہ شناخت کیا جائے کہ ایسے اثاثے کے اصل مالک کون ہیں ؟اگر برطانوی منطق کو پیش نظر رکھیں تو جرمن بھی مالِ غنیمت قراردے کر اْنہیں اپنے پاس رکھنے پر زور دے سکتے ہیں۔ جب ایک امیر دوسرے امیر سے مخا طب ہو تو اس میں بہر کیف پدرانہ انکسار نہیں ہو تا ، نو آبادیاتی نظام میں برتے گئے احتراز کی تشکیل نو نہیں ہو سکتی کہ مقامی باشندے حکومت نہیں کر سکتے۔(سابقہ نو آبادیاتی نظام کے مطابق مقامی باشندے مناسب احترام کرنے کے اہل تھے اور نہ ہی وہ اپنی تاریخ کو محفوظ کرنے کے خواہاں تھے)۔
کوہِ نور کے مسئلے کا بہترین جواب خود رنجیت سنگھ نے ہی دے دیا تھا۔شاید اْس نے پگڑی کے بدلے میں مفتوح افغان بادشاہ سے ہیرا مانگا ہو۔اْ س نے کبھی اْس کو اپنے بازو میں باندھا ہو گا۔کسی ایک موقع پر اس سے ہیرے کی مالیت کے بارے میں پوچھا گیا تو بابر کے برعکس اس ہیرے کی مالیت بتائی تھی کہ اس کو بیچ کر دو دن پوری دنیا کو کھانا کھلایا جاسکتا ہے۔رنجیت سنگھ کومختلف اندازہ تھا۔اس نے خوش کلامی کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دوجوڑے جوتوں کی قیمت کے برابر ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کا مطلب تھا کہ یہ ہیرا اس کا ہے جو اس کو لینے اور رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں۔ رنجیت سنگھ کے مطابق برطانیہ کے پاس طاقت ہے کہ وہ بغیر کسی معذرت خواہی کے کوہ نور کو اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔
کوہِ نور کو کاٹ کر تاج میں لگایا گیا ہے اور ملکہ نے اس کو حال ہی میں پہن کر اس پتھر کی منحوسیت کے مفروضے کو بھی ناکام ثابت کیا ہے۔ کوہِ نور ہیرا جس تاج میں ہے اسے ٹاور آف لندن میں رکھا گیا ہے جہاں پربھارتی ،پاکستانی ،بنگلہ دیشی اور جنوبی افریقی(اگراْن کے پاس ویزہ ہے تو)وہاں جا کر اپنی موجودہ بے بسی اور کمزور ی کے ساتھ گمشدہ میراث پر ماتم کر سکتے ہیں۔یہ ابھی بھی وہاں پر بڑے فخر کے ساتھ جیت کے نشان کے طورپر دکھایا جاسکتا ہے۔