تحریر: سردار منیر اختر ہیرئے کی قدر و قیمت تین ہزار سال پہلے بھی اتنی ہی تھی جتنی آج ہے، تاہم تاریخ میں سب سے زیادہ تین ہیروں کو اہمیت ملی ہے، جن میں :لوراف: (روس): دریائے نور یا مغل اعظم اور کوہ نور (الماس)۔ ایک روس کے پاس دوسرا ایران اور تیسرا برطانیہ کے پاس موجود ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تینوں ایک ہی ہیرئے کا حصہ تھے۔جن کو تراش کر تین بنا دیا گیا،تاہم جو شہرت کوہ نور کو حاصل ہوئی وہ این دوسرئے ہیروں کا مقدر نہ بن سکی۔کوہ نور کو دنیا کا قدیم ترین ہیرا تسلیم کیا جاتا ہے، اس کی کوبصورتی اور حسن کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھ جڑی مختلف تاریخ بھی اس کو نمایاں مقام دیتی ہے۔
india
قدیم ہندوستاتی تاریخ کے مطابق یہ ہیرا لگ بھگ پانچ ہزار قبل دریافت ہوا، جو کہ عرصہ دراز تک ہندو راجوں مہاراجوں کے پاس بھی رہا لیکن اس کی کوئی مستند تاریخ نہیں ملتی۔ ہندوستان میں مسمانوں کی آمد کے ساتھ ہی یہ مسلمانوں کے قبضے میں چلا گیا ۔اور کہا جاتا ہے کہ اسکی باقاعدہ تاریخ بھی مسلمانوں کیہی مرعون منت ہے، روایات کے مطابق یہ ہیرا گولکنڈا کی کان سے نکالا گیااس کو کس نے نکالا یہ کسی کو معلوم نہیں لیکن یہ معلوم ہے کہ یہ کان جس سے اس کو نکالا گیا دریائے کرشنا کے بائیں کنارئے پر موجود تھی۔
خیال ہے کہ جب علاوالدین خلجی نے مالودہ فتح کیا تو یہ مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا، لیکن اس وقت یہ ناتراشدہ حالت میں تھا ،صلح کے بعد یہ ہیرا راجہ بر ماجیت کے خاندان کو واپس لوٹا دیا گیا، پانی پت میں فتح کے بعد 1526 میں یہ مغل خزانے کا حصہ بنا،جس کا تذکرہ تزک بابری کتاب میں بھی موجود ہے،اس وقت اس ہیرئے کا وزن 191قیراط سے بھی زیادہ تھا،کہا جاتا تھا کہ پوری دنیا کے ایک دن کے خرچ کے برابر اس کی قیمت بنتی ہے آج تک اس ہیرئے جیسا کوئی اور قیمتی ہیرا سامنے نہیں آ سکا ہے،مغل بادشاہ ساہ جہاں نے اس کو ترشواکراپنے مشہور تخت طاوس میں لگایا یہ پہلا موقع تھا کہ اسے تراشا گیا۔
Nadir Shah Durrani
مغل سلطنت کے زوال کے بعد نادر شاہ درانی نے دہلی پر حملہ کیا تو اس ہیرئے کی خاطر کئی دن تک قتل عام کیا، محمد شاہ اس ہیرئے کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا تھا اور یہ ہیرا ہر وقت اس کی پگڑی میں موجود رہتا تھا،نادر شاہ جب اتنا قتل عام کرنے کے بعد بھی اس ہیرئے کا سراغ نہ لگا سکا تو اس نے ایک شاہی کنیز کو سازش میں شریک کیا جس نے ہیرئے کا پتا لگا لیاکہ ہیرا محمد شاہ کی دستار میں چھپا ہے،نادر شاہ مزید خون خرابہ نہیں کرنا چاہتا تھا تو اس نے ایک تقریب منقعد کر کہ پگڑیاں بدل کر دوست بننے کے نام پر ہیرا حاصل کر لیا،جب نادر شاہ نے ہیرے کی چمک دیکھی تو بے اختیار پکار اٹھا کوہ نور کوہ نور (یعنی کے روشنی کا پہاڑ)اسی دن سے الماس عرف عام میں کوہ نور کہلانے لگا۔
بدقسمتی سے ہیرا حاصل کرنے کے کچھ دن بعد وہ بھی قتل ہو گیاجس کے بعد یہ ہیرا اس کے بیٹے شاہ رخ کو ملا،ہیرا ملتے ہی اس پر مصیبتوں کا پہاڑ کھل گیا ہیرے کی خاطر شاہ رخ کو طرح طرح کی تکلیفیں دہیں گئیں جس میں وہ اندھا بھی ہو گیا میر عالم خان نے کھولتا ہوا تیل اس کے گلے میں ڈالا لیکن اس نے پھر بھی ہیرئے کا نہ بتایا اور اسی پریشانی میں 1751کو فوت ہو گیا۔موت سے قبل یہ ہیرا اس نے احمد شاہ ابدالی کی نذر کر دیا جس نے مشکل وقت میں اس کا ساتھ دیا۔
British Royal Diamond
ابدالی کی وفات کے بعد اس ہیرئے کا وارث اس کا بیٹا تیمور بنا تیمور کے قتل کے بعد یہ ہیرا اس کے بیٹے شاہ زمان کو ملا ،قسمت اس پر بھی مہربان نہ ہوئی اوراسے اس کے بھائی نے ہیرئے کی خاطر آنکھوں میں سلایاں پھیروا کر اندھا کر دیا،اس کے باوجود اس نے ہیرا نہ دیا اور قید خانے کی دیوار کا پلستر اکھاڑ کرہیرا اس میں چھپا دیا، لیکن پھر بھی کسی نہ کسی طرح اسکا بھائی ہیرئے تک پہچ گیا، یوں پھرتا پھرتا یہ ملکہ وکٹوریہ تک پہچا جو ان کو دو سو پچاسوایں سالگرہ پر دیا گیا اس وقت یہ برطانوی شاہوں کے اہم ترین تاج کا حصہ ہے، یہ عام طور پر دیگر جواہرات کے ساتھ ٹ اور آف لندن میں عوامی نمائش کے لیے رکھا رہتا ہے، اس کو خاص خاص موقع پر ملکہ یا بادشاہ پہنتے ہیں۔