خیبر پختونخوا (جیوڈیسک) پاکستان کی سپریم کورٹ نے چار سال قبل صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے کوہستان میں غیرت کے نام پر پانچ لڑکیوں کے مبینہ قتل کی تحقیقات دوبارہ شروع کرنے سے متعلق دائر کی گئی درخواست پر علاقے کی پولیس کے سربراہ اور صوبے کے ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
منگل کو جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں یہ نوٹس سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ایک درخواست پر دیے۔
درخواست گزار افضل کوہستانی کا کہنا تھا کہ سنہ2012 میں جو ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں لڑکوں کے رقص کرنے پر پانچ لڑکیوں کو تالیاں بجاتے ہوئے دکھایا گیا ہے، اُن کو مبینہ طور پر مقامی جرگے کے فیصلے کی روشنی میں قتل کر دیا گیا ہے اس کے علاوہ اُن لڑکوں کو بھی قتل کر دیا گیا ہے جنھوں نے شادی میں رقص کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ان افراد کو ان کے خاندان والوں نے قتل کیا ہے جس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کیا اس بارے میں کوئی مقدمہ درج ہوا ہے جس پر درخواست گزار کا کہنا تھا کہ چونکہ ان افراد کو اُن کے رشتہ داروں نے قتل کیا ہے اس لیے اس کا کوئی مقدمہ درج نہیں کروایا گیا۔
انھوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جب اس معاملے کا از خود نوٹس لیکر تحقیقات کے لیے جو کمیشن تشکیل دیا تھا اس کمیشن کے سامنے دوسری لڑکیوں کو پیش کر دیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اور پولیس نے ایسے واقعے کے رونما نہ ہونے کے بارے میں سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کی تھی جس کے بعد یہ معاملہ نمٹا دیا گیا تھا۔
جسٹس اعجاز افصل کا کہنا تھا کہ فوجداری معاملے کو محض کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں نہیں نمٹایا جا سکتا اس لیے اس بارے میں تحقیقات ضروری ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ پولیس کو اس معاملے کی تحقیقات کرنی چاہیے۔
عدالت نے متعقلہ حکام کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس درخواست کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔