باتیں کوٹ سلطان کی

Kot Sultan Station

Kot Sultan Station

تحریر : انجم صحرائی
میں شائد پہلے کہیں لکھ چکا ہوں کہ انڈیا سے پاکستان ہجرت کے بعد میرے خاندان کو کوٹ سلطان نشیب مو ضع بیٹ وساوا شما لی میں 50 ایکڑ سے زیادہ زرعی زمین ملی۔ اس کے علاوہ دادی اماں خد یجہ بیگم جو اپنے رعب اور دبدے کی وجہ سے پورے شہر میں تھا نیدارنی کے نام سے مشہور و معروف تھیں نے بڑی کوشش اور تگ و دو کے بعد شہر کے وسطی محلہ جا موں والا میں واقع ایک بڑا مکان جو کسی بڑے ہندو ساہوکار کا چھوڑا ہوا تر کہ تھا اور قیام پاکستان کے بعد محکمہ مال نے اپنے قبضہ میں لے کر وہاں پٹوار خانہ قائم کر رکھا تھا کو اپنے نام الاٹ کرا لیا تھا مجھے یاد ہے کہ ہمارے اس مکان کا گلی میں کھلنے والا لکڑی کا ایک بڑا سا دروازہ تھا دروازے کے پیشا نی پر اس ہندو سا ہو کار کے نام کی تختی بھی لگی تھی یہ دروازہ اتنا بڑا اور اونچا تھا کہ زمینوں سے گندم کی بو ریاں لاد کے آنے والے اونٹ اپنے کو ہان پر لدی بوریوں سمیت دروازے سے گذر کر مکان کے صحن میں آیا کرتے تھے جہاں انہیں بٹھا کر بوریاں اتاری جاتیں۔ اس کے علاوہ محلہ مراد شاہ میں میں بھی ہمارا ایک مکان تھا۔ ایس پی سید شوکت علی شاہ مرحوم معروف صحافی عابد فاروقی، پروفیسر شاہد، میجر سید علی فارو قی، میجر اشفاق زبیری، اور معروف نو جوان قا نون دان سید نعیم شاہ ایڈوو کیٹ کے کا تعلق بھی کوٹ سلطان کے اسی محلہ مراد شاہ سے ہے۔

کوٹ سلطان میں ہمارا اکیلا گھر تھا گو دادی اماں کی سخت مزا جی کے سبب ہمارے آ س پڑوس کے سما جی تعلقات بہت محدود تھے لیکن دادی اماں جتنی سخت تھیں اماں اتنی ہی نرم دل ، محبت اور محبت کر نے والی تھیں۔اماں نے اپنی زند گی میں کوٹ سلطان محبتوں کے جو رشتے بنا ئے وہ آ ج تک میرے لئے محترم ہیں ، ما موں اشتیاق ، خالہ ماجن ، خالہ خا لدہ ، خا لہ خو رشیدی یہ وہ ہستیاں ہیں جن کی محبتوں اور شفقتوں کو میں کبھی نہیں بھول پا یا۔ خا ص کر ما موں اشتیاق اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کی اہلیہ خالہ ماجن کو صحت کا ملہ عطا فر مائے میری زند گی کے ان عظیم لو گوں نے اپنا نہ ہو تے ہو ئے بھی ہمیں اتنی اپنا ئیت دی اتنی اہمیت اور وقعت دی کہ میں ان کی محبتوں کا یہ قرض شا ئد ہی اتار سکوں۔۔۔ بھلا سکوں ۔

ابتدا ئی دنوں میں با با جی اپنے آ با ئی پیشہ یعنی پو لیس ملازمت سے وا بستہ تھے لیکن افتاد طبع اور گھریلو ذمہ داریوں کے سبب محرر تھا نہ سے آ گے کا سفر نہ کر سکے اور ملاز مت سے استعفی دے کر زمینوں کی دیکھ بھال کر نے گھر آ بیٹھے ۔ لیکن ملاز مت پیشہ لوگ تھے زر عی زمینیں تو اللہ نے دی تھیں مگر سول سروس میدان مکے یہ کا میاب لوگ زرعی کاشت کی کچھ زیادہ سوج بوجھ نہ ہو نے کے سبب ایک تو زراعت کے تقا ضوں سے بے خبر تھے دوسرے دادا ابو علی حسن کی وفات کے بعد شروع ہو نے والے وراثت کے سول مقد مات نے اتنا الجھا یا کہ بس زند گی ہی الجھ کر رہ گئی۔

Panjtan Rizvi

Panjtan Rizvi

محکمہ پولیس کی ملازمت سے علیحد گی کے بعد ابو نے بیٹ وسا وا شما لی میں واقع اپنی زمینوں پر آ ٹا چکی لگا لی اس زما نے میں پیٹرانجن نہیں ہوا کرتے تھے بجلی تو خیر کوٹ سلطان شہر میں بھی نہیں تھی نشیب میں کہاں سے ہو تی۔اسی لئے آ ٹا چکی چلا نے کے لئے بڑے انجن استعمال ہو تے تھے جنہیں چلا نے کے لئے ڈیزل استعمال کیا جاتا تھا یہ ڈیزل انجن اب بھی کہیں کہیں نظر آ تے ہیں مگر آ ج کل ان کی جگہ پیٹر انجنوں نے لے لی ہے۔

اس زمانے کی آ ٹا چکی بھی آ ج کی چا ئینا چکی سے بڑی اور مختلف ہو تی تھی۔ یہ آ ٹا چکی پتھروں کے دو بڑے بڑے بھاری پاٹ پر مشتمل ہو تی جو ایک دو سرے پر رکھے ہو تے تھے ڈیزل انجن سٹارٹ کر نے کے لئے بھی خا صی محنت کر نا پڑتی جب چکی چلتی تو اس کی چمنی سے نکلنے والے دھوویں اور بھک ۔۔بھک ۔۔بھک کی آ واز دور سے پیدل سفر کر نے والوں کو آ بادی کا پتہ دیتی۔ مجھے یاد ہے کہ اس زما نے میں گندم کے سیزن میں گندم کی بوریوں سے لدے اونٹ گھر آ تے تو آ نے والی گندم کچھ ہی دنوں میں تقسیم سارا سال ادھار دینے والے دکا نداروں میں تقسیم ہو جاتی اور یوں دو مر بع ارا ضی کے مالک ہو نے با وجود ہم لوگ سارا سال ادھا ر کا ہی شکار رہتے۔ دودھ گلزار کی دکان سے ادھار آتا،۔ آ ٹا سردار اعوان کی چکی سے ، سبزی خا لو حنیف یا عبد الشکور سبزی والے کی دکان سے ، کپڑا تاج محمد تا جو کی دکان سے ادھار لے لیتے حتی کہ علاج معا لجہ کی سہو لتیں بھی ڈاکٹر شمشاد ، ڈاکٹر خلیل اور ڈاکٹر یا مین سے زیادی تر مفت اور کبھی کبھی سال کی ادھار پر حا ضر تھیں۔

کریانہ چچا ھقیقت کی ذمہ داری تھی چچا ھقیقت نے نان دنوں نئی نئی کر یا نے کی دکان بنا ئی تھی ۔ ان کا گھر ہمارے بڑے گھر سے متصل تھا ۔ ان دنوں شا ئد ہمسا یہ ماں جا یہ کا جادو سر چڑھ کر بو لتا تھا ۔کتا بوں ،کا پیوں اور تختی سلیٹ اور قلم دوات کے لئے ملک ثنا ء اللہ منجو ٹھہ اور غلام نبی درزی کی دکا نیں حا ضر تھیں ۔ غرض سارا سال ادھار ہی چلتا ۔ آ ج سو چتا ہوں تو حیران ہو تا ہوں کیسا سماج اور کیسا ما حول تھا لو گ کیسے ایک دو سرے سے جڑے تھے۔

Kot Sultan

Kot Sultan

میرا بچپن کوٹ سلطان کی انہی گلیوں میں گذرا۔ دھرم شا لہ پرا ئمری سکول میرا پہلی در سگاہ ہے۔ سکول کے ہیڈ ما سٹر ما سٹر عبد الکریم تھے جو ممتاز قا نون دان خا لد بزمی کے والد تھے۔ خالد بز می کے ایک اور بھا ئی پر فیسر واجد بز می ڈیرہ غا زیخان ایجو کیشن بورڈ کے کنٹرولر ببھی رہے خالد بزمی کی والدہ لیہ کے معروف ڈاکٹر فیروز کی بہن تھیں اور خود بھی خاتون معالج تھیں۔

بلاشبہ ان کا دم کوٹ سلطان کی خواتین کے لئے ایک غنیمت تھا ۔ اس مادر علمی میں مجھے ماسٹر غلام حسن منجوٹھہ ، ذو الفقار بخاری اور اللہ بخش جیسے نا بغہ روزگار اسا تذہ کی تعلیم و تر بیت نصیب ہو ئی ۔ اس دور میں کوٹ سلطان میں ایک گورٹمنٹ بوائز ہا ئی سکول اور ایک گورٹمنٹ گرلز مڈل سکول ہوا کرتا تھا ۔ ہا ئی سکول کے ہیڈ ما سٹر ممتاز خان گورما نی اور گرلز سکول کی ہیڈ مسٹریس مسز رضوی ہوا کر تی تھیں ۔ معاف کیجئے گا مسز رضوی کا نام بھول رہا ہوں اللہ بخشے مر حو مہ فضل حق رضوی( تحصیلدار ) کی اہلیہ تھیں ۔ مسز رضوی کے بڑے بیٹے سید پنجتن رضوی آج کل ڈائریکٹر جزل پا کستان پوسٹ ہیں ۔ جب کہ ان کے چھو ٹے بیٹے اعجاز رضوی کسی نجی بنک میں اعلی عہدے پر فا ئز ہیں۔

کوٹ سلطان کی شخصیات میں میں جن سے بہت زیا دہ متا ثر ہوا ان میں ایک سید ممتاز شاہ تھے ۔ گو یہ ایک زمیندار تھے لیکن انہیں اپنے بچوں کو پڑ ھا نے کا جنون تھا ۔ ان کی اسی تعلیم دو ستی کے سبب ان کا ایک بیٹا سید شو کت علی شاہ نے سو سر وس کے مقا بلہ کا امتحان پاس کر کے پہلے انکم ٹیکس اور بعد میں محکمہ پو لیس کو جوائن کیا ۔ سید شو کت شاہ پو لیس آ فیس ہو نے کے ساتھ ساتھ ادیب اور شا عر بھی تھے وہ پو لیس میں بحیثیت ایس پی اپنے فرا ئض انجام دے رہے تھے کہ ایک حاد ثہ میں ہلاک ہو گئے شو کت علی شاہ کے چھو ٹے بھا ئی سخاوت علی شاہ جو ڈاکٹر ہیں میرے کلاس فیلو ہیں آ ج کل محکمہ ہیلتھ پنجاب سے وا بستہ ہیں۔

گورٹمنٹ ہا ئی سکول میں ہمارے ہیڈ ما سٹر اللہ یار الما نی تھے اسکول اسا تذہ میں استاد غلام حسین منجو ٹھ، ملک عا شق حسین انگلش ٹیچر ، محمد رفیق اردو ، محمد عبد الرشید اردو ، ما سٹر حفیظ ڈرا ئینگ ما سٹر ، خو رشید احمد عر بی ٹیچر ، غلام حسین دستی سا ئینس ٹیچر ، ما سٹر گل محمد کھرل ، فیض محمد ڈو لو انگلش ٹیچر جیسے کمال اسا تذہ سے کسب فیض کے مواقع ملے۔

کوٹ سلطان میں ان دنوں کھیل کے میدان آ باد ہوا کرتے تھے مجھے یاد ہے کہ اس زما نے میں سکول کے بچے ہائی سکول کے ملحقہ فو جی میدان جہاں آج کل کالج بلڈ نگ ہے میں ہا کی کھیلا کرتے تھے
وہ زما نہ ہا کی کا زما نہ تھا ، آج بھی ہمارا قو می کھیل ہا کی ہی ہے۔ کر کٹ نے توبہت دیر سے کھیل کے میدان کو فتح کیا۔ سکول کے طلبا بھی پی ٹی کے پیر یڈ میں اسی میدان میں پی ٹی کیا کرتے تھے ۔ ہمارے پی ٹی آ ئی ماسٹر حیات نیازی ہوا کرتے تھے جن کی اکڑی مو نچھ اور تیز آ نکھ سے سب بچوں کی جان جایا کرتی تھی۔۔۔ باقی آئیندہ

Anjum Sehrai

Anjum Sehrai

تحریر : انجم صحرائی