تحریر : انجینئر افتخار چودھری سیری یو سی ہلی کی ایک وارڈ ہے یہاں کے لوگوں نے اپنی پسماندگی اور بے چارگی کا رونا رویا ہے۔یہ تو پھر روڈ پر ہیں (چاہے وہ ٹوٹا پھٹا ہے)اس سے بھی گئے گزرے جنڈی ببھوتری سوکڑ بوکن کھلیان کے لوگ ہیں جو دھارتیاں کے ساتھ ہرو کنارے کسی نجات دہندہ کی تلاش میں ہیں۔ اب سوال اٹھے گا کہ یو سی ہلی ہے کدھر۔چلئے یہ بھی بتا دیتے ہیں اسلام آباد سے جو سڑک پیر سوہاوہ ٹاپ کو جا رہی ہے یہ سڑک آگے ہزارہ میں داخل ہوتی ہے کمبل گلی سے ہوتی ہوئی برکوٹ اور وہاں سے درکوٹ اور درکوٹ سے جڑا نلہ میرا گائوں اس طرف مت جائے ایک سہ راہے پر بائیں ہاتھ نکل جائے تو ہلی گائوں آتا ہے یہ گائوں اس لحاظ سے بھی مشہور ہے کہ جنرل ظہیر عباسی جو بڑے اللہ لوک تھے یہ ان کا گائوں ہے۔اسی کی داخلی سیری ہے۔ہے تو ضلع تو ضلع ہری پور مگر پچھواڑہ ہے اسلام آباد کا یہاں اس گائوں کا کیا سارے علاقے کا حال بے ڈھنگا ہے۔بجلی بل بنانے کے لئے آتی ہے ظہور عباسی نائب ناظم ہیں انہوں نے کہا تھا کہ پنکھے کے پر گنے جا سکتے ہیں۔سڑک نام کی ایک چیز ہے ۔سچ پوچھیں جہاں تھانہ لورہ کی حدود کی شروع ہوتی ہے وہیں سے آپ گاڑی پر گرفت مضبوط کر لیں اس لئے کہ دیس ہزارہ شروع ہو گیا ہے پتہ نہیں جھلے لوگ مہمانوں کو موئن جو دڑو کیوں لے جاتے ہیں یہیں لے آیا کریں کوہال بالا اس کھنڈر نما سڑک کے کنارے ایک ابھرتی ہوئی چھوٹی سی مارکیٹ ہے بارش ہو جائے تو اس بازار سے گزرنے کے لئے کوئی کشتی مل جائے تو ٹھیک ورنہ تیر کے جانا ہوتا ہے یہاں سے ایک سڑک دائیں ہاتھ گھوڑا گلی کو جاتی ہے اسی سڑک کنارے ایک انتہائی غیر مناسب نام کی ایک تحصیل ہے جس کا نام لورہ ہے۔
سردار ادریس سے کہوں گا کہ بھائی نام تو کسی چج کا رکھوا دو عباسی برادری کیاکثریت ہے عباس پور رکھ دیں۔اس سڑک پر بھی دل گردے والی گاڑی جاتی ہے۔یقین کیجئے یہاں اس علاقے کی قسمت ایک مدت سے نہیں بدلی اور نہ ہی بدلنے کی امید ہے یہاں کے منتحب نمائیندوں کو کسی نے بتا دیا ہے کہ پڑھا لکھا شخص آپ کی غلامی کی زنجیریں کاٹ کے رکھ دے گا لہذہ انہیں پڑھنے نہ دیا ۔اس دور کا انسان چاند سے تو بیس سال پہلے نپٹ چکا ہے وہ تو اب مریخ پر جانے کا سوچ رہا ہے لیکن یہاں اب بھی کھوتی پیڑنے کے بہترین طریقے ڈھونڈے جاتے ہیں پرانے راکٹ چنگاڑتی ہوئی آوازوں کے ساتھ ہولے ہولے چلتے ہیں جیسے مدر انڈیا میں دلہن کو بیل گاڑی پی کے گھر لے جانے کا سفر طے کرتی ہے۔
اس اندھیر نگری کے چوپٹ راجے انھی پانے کی سینچری مکمل کرنے کو ہیں۔نہ سڑک نہ اسکول ہسپتال بھی نا پید۔صوبائی اسمبلی کے رکن نون لیگ کے اور قومی کے رکن بھی نون لیگ کے ہیں۔بعض اوقات دل تو کرتا ہے کہ انہیں ان کے کرموں کی سزا مل رہی ہے ملنے دیں لیکن سوچ یہ آ جاتی کہ کم علمی غربت سوچ کو مفلوج کرتی ہے۔میں ایک کالم نویس بھی ہوں سیاست دان بھی ہوں اور اس علاقے کا وہ مفرور ہوں جو ہزاروں اور لاکھوں کی طرح دانے دنکے کی تلاش میں ملک سے باہر نکل گیا اور جب تیل باہر سونے کا روپ کا بدل کر نہیں آیا تھا تو یہ کراچی کے ہوٹلوں میں ،بڑی بڑی عمارتوں میں کیل قبضے لگانے نکل گئے تھے شکر ہے ایوب خان کا کہ اس نے اسلام آباد بنایا تو ہم لوگ مالی،چوکیدار بن گئے۔
ہم بھی پنجاب چلے گئے اور پڑھ گئے ورنہ ہم بھی اسی نگری میں کبھی کسی کی ڈیوڑھی اور کبھی کسی کی بیٹھک میں بیٹھے ہاتھوں سے اپنی گتھی سے تمباکو نکال کر مسلتے جی حضوری کرتے نظر آتے۔کیا ہماری قسمت میں روٹی صرف دبئی جدہ کراچی اور اسلام آباد میں ہے۔میرا رونا ٢٠٠٢ میں ہلی کے مقام پر میری تقریر میں یہی تھا کہ اس علاقے کے لوگوں کی ماں کا حق ہے کہ وہ اپنے بیٹے کوجنم دے اسے اپنی آنکھوں کے سامنے پلتا بڑھتا دیکھے اور اپنے جیتے جی اپنے بچوں کی اٹھکیلیاں اپنے سینے سے لگائے مگر ایسا ہوتا نہیں میں ملائیشیا گیا یہ ٢٠٠٤ کی بات ہے مجھے شہداء کی یادگار دیکھنے کا موقع ملا یہ جنگ عظیم کے شہداء تھے ان کے ناموں کی تختیاں دیکھ کر دل دو ہتھڑ مار کر رویا کہ سب نام اپنے تھے کالا خان،میرداد گجر،فضل داد عباسی اور اور۔۔ کتنے نام لوں حتی کہ گھیبا خان بھی وہاں دفن تھا روٹی کے لئے انگریز کی فوج میں اسے بھرتی کرایا گیا اس کے عوض لوگوں نے جاگیریں لے لیں اور لام میں ابھرتے ہوئے جوان بھرتی کر لئے گئے یہ سب بھرتی کی نرسریاںتھیں یہاں کسی نے کوئی کارخانہ نہیں لگایا فیکٹریاں نہیں لگیں اور لوگ بھرتی ہو کر چلے گئے جو کام آ گئے اسے شہید کا درجہ دیا گیا کچھ پیسے مل گئے کوئی تھوڑی بہت زمین۔ اس ظلم عظیم کو برداشت کرتے کرتے زمانے گزر گئے سب کے حالات بدلے لیکن اس علاقے میں کوئی ڈھنگ کا اسکول،کالج ہسپتال اب بھی نہیں ہے۔میں پی ٹی آئی کا ایک ذمہ دار ہوں میری آواز موجود ہے لیکن ایک حد تک۔نقار خانے میں ظوطی نہ سہی اس سے آگے ایک قدم مگر سچ پوچھئے اس علاقے کے حلات مجھے اب بھی بدلتے اس لئے نہیں آتے کہ ہمارے لوگ اپنے نمائیندے وہ چنتے ہیں جو جن کے اپنے پیٹ ہی اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ پسے ہوئے شخص کو کچھ نہیں ملتا اوپر سے مولوی نے اسے یہ سبق پڑھا دیا ہے کہ نصیب میں یہی لکھا ہے اس لکھے ہوئے نصیب کو ملاں یہ نہیں بتا تا کہ اللہ پاک نے قران میں کہا ہے کہ خدا اس قوم کی حالت کسی صورت نہیں بدلتا جس قوم کو آپ اپنی حالت بدلنے کی فکر نہ ہو۔انقالب مسجد کے اسپیکر سے مزدور کے تیشے سے برامد ہوتا ہے۔اور اب وقت آ گیا ہے کہ لوگ اپنے حق کے لئے نکلیں۔میں بنوں گا آپ کی آواز اور میں چلوں گا آپ کے ساتھ پشاور جائیں گے اسلام آباد جائیں گے اور اپنا حق مانگیں گے۔
کوہالہ سے ترناوہ سڑک جو دیسرہ ہوتی ہوئی جاتی اسے بننا چاہئے اس پروجیکٹ کو میگا سمجھ کر اس پر کام ہونا چاپئے تھانہ لورہ کی حد تک آ کر اسلام آباد سے آنی والی سڑک جو یہاں مردہ ہو جاتی ہے یہ بھی آگے بڑھے اور گلیات تک بنانے کا کام تیزی سے مکمل ہو۔پرویز خٹک سے میں نے بلین ٹری کے درختوں کے معائنے کے موقع پر کہا تھا کہ درخت کا بوٹا تو لگ جائے گا اور چیڑھ اگ آئے گی لیکن اصل کام ان غربت کے مارے لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔اس موقع پر ہری پور سے ہمارے ایک محترم لیڈر بھی موجود تھے جو جواب مجھے ملا اور جو جواب ان کو ملا یہاں لکھنے کا نہیں ہے لیکن سچ پوچھیں ہم کسی صورت جنوبی پنجاب کے لوگوں کی طرح محروم اور مظلوم نہیں بنیں گے ان کے مظفر خان کو قیدی تخت لہور کا بنایا گیا تھا کوئی افتخار پشور کا قیدی نہیں ہے ۔کچھ نہ ہوا تو صوبہ الگ کر لیں ہزارہ چھوٹا ہے تو پوٹھوہار کو ساتھ ملا کر پوٹھوہزارہ بنا لیں گے لیکن اپنے علاقے کی پسماندگی کو دور کریں گے۔
ایک اور لعنت کا خاتمہ کرنا ہو گا اور وہ ہے برادری ازم کا اللہ کے فضل سے اس کے روشن امکانات ہیں کہ ہم اس لعنت سے چھٹکارہ پا لیں گے۔یہ لڑائی جہالت اور روشنی کی بنیاد پر لڑی جائے گی جو تبدیلی اور روشنی کے راستے کا رہزن ہے اس سے جنگ ہے اس میں کوئی راجہ گجر عباسی اعوان سید نہیں ظالم اور مظلوم کے د و طبقات کی اس لڑائی میں ہم سب ایک ہیں۔مجھے مختلف دوستوں کی جانب سے پیغامات ملتے رہتے ہیں اور انہی پیغامات کی روشنی میں یہ بات طے ہے کہ اپنی آواز کو بلند کیا جائے۔کوئی یہ کہے کہ ساری زمہ داری پی ٹی آئی کی ہے تو یہ بھی غلط ہے وفاق چاہے تو ہماری قسمت بدل سکتا ہے۔
ہم بابر نواز اور راجہ فیصل سے بھی کہیں گے کہ آپ کو اللہ نے توفیق دی ہے کہ پی کے انچاس کے لوگوں کی تقدیر بدل سکتے ہیں وزیر اعلی تک میں لے جائوں گا اس مسئلے پر ہماری کوئی پارٹی نہیں۔میں نئے لوگوں کی ایک کھیپ دیکھ رہا ہوں جو ان خون چوسنے والے عناصر کو دیوار سے لگانے کی ہمت رکھتے ہیں پہاڑ کے لوگ متحد ہو گئے تو میدان بھی آپ کے ساتھ ہو گا۔ میری درخواست ان اہل خیر اوورسیز پاکستانیوں سے ہے کہ خدارا اپنے اپنے شہروں میں پی کے انچاس کے نادار طلاباء کے لئے وظائف دیں بیوائوں کو وظیفے دیں اپنی زکوة اس کام پر صرف کریں راستے ٹھیک کروائیں اور پانی کے نلکے لگوائیں یہ کام اشتیاق عباسی اویس نثار سعودی عرب سے اور دیگر دوست دوسری جگہوں سے شروع کریں۔کل عابد مختار چودھری سفیر عباسی اور دوست ملنے آ رہے ہیں ۔انشاء اللہ اور لوگوں سے مل کر ایک تحریک شروع کریں گے اور اپنے علاقے کی تقدیر بدلیں گے۔ہلی جنڈی ہی نہیں یہ پے کے انچاس کے پہاڑی علاقے خاص توجہ کے مستحق ہیں۔