پشاور (جیوڈیسک) جماعت اسلامی نے خیبر پختونخوا میں اپنی شراکت دار پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں چلائی جانے والی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے صوبے اور ملحقہ قبائلی علاقوں کے سرکاری اور نجی شعبے کے اسکولوں کے نصاب میں سے اسلامی مواد خارج کر دیا ہے۔
جماعت اسلامی کے صوبائی سربراہ پروفیسر ابراہیم خان نے لکی مروت کے علاقے سرائے نورنگ میں جماعتی کارکنوں کو بتایا کہ ’’صوبائی حکومت نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ، آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اور چاروں خلفائے راشدینؓ سے متعلق اسباق درسی کتابوں سے خارج کردیے ہیں، جبکہ رنجیت سنگھ، راجہ داہر اور برطانوی راج کے خلاف برصغیر میں عدم تشدد کی تحریک چلانے والے خان عبدالغفار خان کے بارے میں مواد شامل کر دیا ہے۔‘‘
یہاں جاری کیے جانے والے ایک نیوز ریلیز کے مطابق پروفیسر ابراہیم کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی نے نصاب میں تبدیلی کے بارے میں صوبائی حکومت کو اپنے تحفظات کا باضابطہ طور پر اظہار کیا تھا، اور اس حوالے سے اپنی سفارشات پیش کردی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ نہ تو حکومت نے قابلِ اعتراض مواد کو نصابی کتابوں کا حصہ بنانے کے لیے جماعت اسلامی کو اعتماد میں لیا تھا، اور نہ ہی حکومت نے اس سلسلے میں جماعت کے ساتھ کوئی اشتراک کیا ہے۔
پروفیسر ابراہم نے کہا کہ ان کی پارٹی نے متعدد مرتبہ صوبائی حکومت سے کہا تھا کہ نصاب میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے اور جہاد سمیت اسلامی تعلیمات اور اقدار سے متعلق مواد کو برقرار رکھا جائے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا ’’اس اقدام کے نتائج بہت سنگین ہوں گے۔ اگر ہمارے تحفظات کو پیش نظر رکھتے ہوئے نصاب کو پاکستان کے نظریے کے مطابق بنانے کی یقین دہانی نہیں کرائی گی تو پھر ہم صوبائی حکومت کو کام کرنے نہیں دیں گے۔‘‘
جماعت اسلامی کے رہنما نے خبردار کیا کہ ان کی جماعت تدریسی کتابوں میں اس طرح کے قابلِ اعتراض مواد داخل کرنے کے خلاف احتجاج کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت میں پچھلی حکومت بھی نصاب سے اسلامی مواد کے اخراج کی ہمت پیدا نہیں کرسکی۔
پروفیسر ابراہیم خان نے اسلام آباد میں جاری احتجاجی مظاہروں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا اور فاٹا میں گزشتہ انتخابات میں نتائج میں تبدیلی کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں کی طرح دھاندلی کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت موجودہ سیاسی نظام کو پٹری سے اُتارنے کی کسی کو اجازت نہیں دے گی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ انتخابی نظام میں سخت اصلاحات کی بھی حمایت کرتی ہے۔
جماعت اسلامی کے رہنما نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں جاری احتجاج جلد ہی ختم ہوجائے گا، اور اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، وہ بھی بے نقاب کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے بایومیٹرک سسٹم متعارف کروانے کے لیے صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت سے درخواست کی گئی تھی، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جب اطلاعات اور اعلٰی تعلیم کے صوبائی وزیرمشتاق غنی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے نصاب سے اسلامی مواد کے اخراج کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ درسی کتابوں میں نظریہ پاکستان اور اسلامی تعلیمات کے متصادم مواد کو داخل کرنے سے متعلق انہیں کوئی علم نہیں۔ مشتاق غنی نے کہا کہ اس معاملے پر جماعتِ اسلامی کی جانب سے پیش کی گئی سفارشات کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے۔
انہوں نے کہا ’’جماعتِ اسلامی ہماری حکومت میں شراکت دار ہے۔ اگر اس کو نصاب کے بارے میں تحفظات ہیں، تو ہم ان کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ صوبائی وزیر نے کہا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے متعلق مواد کو نصاب سے خارج کرنے کے حوالے سے حکومت کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
اسی دوران ٹیکسٹ بک بورڈ کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے نئی درسی کتابوں سے متعلق جماعت اسلامی کی سفارشات سے حکومت نے اصولی بنیادوں پر اتفاق کیا تھا، جنہیں اب تک شایع کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ’’ٹیکسٹ بک بورڈ کو جماعت اسلامی کی تجاویز اور سفارشات موصول ہوئی تھیں، اور انہیں نئی کتابوں میں شامل کیا جائے گا۔‘‘
مذکورہ عہدے دار نے کہا کہ رنجیت سنگھ، غفار خان اور دیگر رہنما پاک و ہند کی تاریخ کا حصہ ہیں، اور اسی لیے یہ ناممکن ہے کہ ان کا نام اور ان کی سرگرمیوں کو تاریخ سے خارج کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی پالیسی کے مطابق مذہبی شخصیات کے بارے میں کچھ مواد بار بار پیش نہیں کیے جاسکتے۔