تحریر: سید انور محمود صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے وزیر اعلی بنتے ہی یہ اعلان فرمایا تھا کہ صرف نوئے روز بعد ہی بلدیاتی انتخابات کرادیے جاینگے، یہ جو خان صاحب اور وزیر اعلی31 مئی کے انتخابات کے انعقاد کو اپنا کارنامہ بتارہے تھے ، ان انتخابات کا انعقاد سپریم کورٹ کے اُس حکم کے تحت ہوا ہے جس میں تمام صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کےلیے کہا گیا تھا۔ بلوچستان کے بعد خیبر پختونخوا کی حکومت نے سندھ اور پنجاب سے پہلے انتخابات کا انعقاد کیا لیکن جسطرح کے بلدیاتی انتخابات کرائے گئے بہتر تھا کہ انتخابات کرائے ہی نہ جاتے۔ خیبر پختونخوا میں 31مئی کے دن صبح سے شام تک پولنگ اسٹیشن کی حدود میں جو ناخوشگوار واقعات ہوتے رہے وہ تو کسی اور نئے خیبر پختونخوا کی تصویر پیش کر رہے تھے، غنڈوں اور بدماشوں کے راج والا نیا خیبر پختونخوا۔ کئی پولنگ اسٹیشن پر حالات کشیدہ ہونے کی وجہ سے پر پولنگ کا عمل بھی روک دیا گیا۔
کئی شہروں میں پولنگ اسٹیشن پر سیاسی جماعتوں کے کاکنوں کے درمیان ہاتھا پائی، لڑائی جھگڑوں اور فائرنگ کے واقعات ہونے کی وجہ سےکافی لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے، لیکن امن و امان کو قابو میں رکھنے کے لئے صوبائی حکومت نے تو کوئی کردار ادا نہیں کیا اُلٹا یہ کہکراپنی جان چھڑانے کی کوشش کی کہ انتخابات کے دوران امن و امان کو قائم رکھنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یعنی صوبائی حکومت چھٹی پرہوتی ہے اور شاید اسی چھٹی کو پی ٹی آئی کا ایک وزیر مادر پدر چھٹی سمجھ بیٹھا۔
گیارہ مئی 2013ء کے انتخاب میں دھاندلی کے خلاف سب سے اونچی آواز بلند کرنے والے تحریک انصاف کے صوبائی وزیر علی امین گنڈا دندناتے ہوئے پولنگ اسٹیشن میں گھس گئے، بیلٹ پیپر ساتھ لے جانے کی کوشش کی۔ گلی گلی، محلے محلے پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر بیلٹ پیپر نظر آئے، امین گنڈا کے خلاف فائرنگ اور پولنگ عملے سے بدسلوکی کا مقدمہ درج ہوا تھا، جرم کی ایف آئی آر تو درج ہو گئی لیکن پولیس دو دن کے بعداس وزیر کو گرفتار کرسکی۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ پشاور کے تھانہ ریگی میں پی ٹی آئی کا ایک ایم پی اے پولنگ اسٹیشن کے اندر بیٹھ کر ٹھپے لگا رہا تھا ،کمشنر پشاور نے اس پر پولیس کے سربراہ کو خط بھی لکھا کہ ملزم کو گرفتار کیاجائے۔ آخر ان انتظامی نااہلیوں کا ذمہ دار کون ہے۔
PTI
اکتیس مئی کے کے بلدیاتی انتخابات میں جس طرح تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے بدانتظامی اور سرکاری مشینری کا استعمال دیکھنے میں آیا ہے وہ حکومت کی انتظامی نااہلی کا واضح ثبوت بھی ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات کی نسبت 31 مئی کو انتخابی بے قاعدگیوں کا کہیں بڑا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔عمران خان اور تحریک انصاف کی جانب سے جس مثالی بلدیاتی نظام کے دعوے کیے جارہے تھے اس کی بنیاد بیس سے زیادہ لاشوں اور سو سے زائد زخمیوں کے خون سے رکھی گئی ہے۔ جس ایماندار پولیس کی عمران خان ہر جگہ مثالیں دیتے ہیں اورجس کی غیر جانبداری اورسیاسی دباو سے آزادہونے کادعوی کیا جاتا ہے وہ پولیس 31 مئی 2015ء کو دو بڑئے کام کرتی نظر آئی پہلا اسکا کام تھا کہ تحریک انصاف کے امیدواران کے لیے ووٹ مانگے اور دوسرا کام یہ کیاکہ سابق ائے این پی کی حکومت کے وزیرمیاں افتخار حسین کو قتل کے ایک انتہائی جھوٹے مقدمے گرفتارکرلیا۔
اے این پی کے لیڈر میاں افتخارحسین کی گرفتاری کی وجہ سے صوبائی حکومت کی غیر جانبداری دھری کی دھری رہ گئی۔ اُن کی گرفتاری باقاعدہ تفتیش سے پہلے ہی عمل میں آ گئی اور جبکہ وقوعہ کے فوری بعد اور یکم جون 2015ء کو عدالت میں مقتول کے والد نے صاف طور پر کہا کہ اس نے میاں افتخار کا نام ایف آئی آر میں درج ہی نہیں کرایا، پھر یہ کس کا کام تھا۔ میاں افتخار کی گرفتاری کے عمل کے دوران پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اُن پر حملہ کرنے کی کوشش کی جسے میاں افتخار قاتلانہ حملے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ میاں افتخار نے یکم جون کو عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں کیسے کسی کے بیٹے کو قتل کرنے کی جرأت کر سکتا ہوں جبکہ میرا اپنا بیٹا دہشت گردی کے واقعہ میں زندگی سے محروم ہو چکا ہے۔ جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر کو دو دن تک گرفتار نہ کرنے کا عذر یہ پیش کیا گیا کہ تفتیش مکمل کرنے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔
اگرچہ انتخابی بدنظمی کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر بھی عائد ہوتی ہے تاہم الیکشن کمیشن اپنے محدود وسائل میں ایک حد تک نظم و ضبط یقینی بناسکتا ہے۔ ایسے میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے اہلکاروں کی جانب سے حکمران جماعت کے لیے ووٹ مانگنے اور مخالفین کو ہراساں کرنےکے واقعات پر عمران خان کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت اسلامی سمیت سبھی سیاسی جماعتوں نے اِن انتخابات کوبدترین دھاندلی کا شاہکار قراردیا۔ آصف زرداری نے کہا کہ قوم نے دھاندلی دیکھ لی،عمران خان کے خلاف ایکشن لیاجائے۔ الطاف حسین نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کالعدم قراردے کرنئے انتخاب کروائے، اسفندر یار ولی نے مطالبہ کیا ہے کہ عمران خان اس بات کو تسلیم کرئے کہ اُس نے دھاندلی کروائی ہے، ساتھ ہی وہ صوبائی حکومت ختم کرئے اور دوبارہ الیکشن کرائے۔ نوازلیگ کا کہنا ہے کہ نئے پاکستان کاخواب دکھانے والے کے پی کے میں عملی طورپر ناکام رہے اورملکی تاریخ کی بدترین دھاندلی دیکھنے میں آئی۔ فیئراینڈ فری الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی رپورٹ کے مطابق کہ بلدیاتی انتخابات میں 26 فیصد دھاندلی ہوئی۔
Imran Khan
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور خیبر پختونخوا کے حکمراں عمران خان فرمارہے ہیں کہ دوسری سیاسی جماعتیں جن میں اُنکی اتحادی جماعت اسلامی بھی شامل ہے سب کا یہ کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے بلدیاتی انتخابات میں بہت بڑئے پیمانے پر دھاندلی کی ہے، لہذا اگر دوسری سیاسی جماعتیں سارئے خیبر پختونخوا میں یا پھرمخصوص حلقوں میں دوبارہ بلدیاتی انتخابات کا مطالبہ کرتی ہیں تو ہم اس کےلیے تیار ہیں۔ عمران خان کے حمایتی اور اُنکے ہمدرد عمران خان کی اس پیشکش پرعمران خان کی واہ واہ کررہے ہیں۔ لیکن 31 مئی 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں جو ہلاکتیں ہویں اور آج تک ہورہی ہیں کیا عمران خان اُسکی ذمہ داری بھی قبول کرینگے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے حکمرانوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ 2005ء کے بلدیاتی انتخابات اور 2013ء کے عام انتخابات میں بھی اس طرح کے واقعات دیکھنے کو نہیں ملے۔کیا پولنگ اسٹیشن کی حدود سے باہر بد امنی پر قابو پانا صوبائی حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی؟۔ لیکن مسلہ یہ تھا کہ جب صوبائی حکومت کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی تھیں وہ دھاندلی میں مصروف تھی۔ چارسدہ میں اُمیدوار قتل ہوا ،ڈیرہ اسماعیل خاں میں بیلٹ بکس جلائے گئے، پولیس ٹھپے لگاتی رہی اورووٹر سرِعام مہریں لگاکر ووٹ کاتقدس پامال کرتے رہے ۔
جسطرح الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبہ خیبر پختونخوا میں سات مئی کو حلقہ پی کے 95 لوئردیر میں خواتین کی عدم شرکت کی وجہ سےاُن ضمنی انتخابات کو کالعدم قرار دیکر دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیاہےاور جسکی ذمہ دار بھی خیبر پختونخوا کی حکومت ہے،کیونکہ خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنا ایک جرم ہے اور سات مئی کو یہ جرم بغیر کسی رکاوٹ کے ہوا، اس جرم میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت اسلامی سب سے آگے تھی۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے 31 مئی کو ہونے والے دھاندلی زدہ اور خونی بلدیاتی انتخابات کو از خود نوٹس لیکرکالعدم قرار دے، اسکے ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ جب بھی آئندہ انتخابات ہوں فوج کی نگرانی میں ہوں ۔ اسلیے کہ اب یہ بات ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ 31 مئی کے بلدیاتی انتخابات میں پوری پاکستان تحریک انصاف اوراُسکی حکومت دھاندلی میں ملوث رہے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں 31 مئی کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات بدترین دھاندلی کا شاہکارتھے۔