پشاور (جیوڈیسک) خیبر پختونخوا میں وائس چانسلروں کی تقرری میں قانونی شرائط آڑے آ گئیں۔ اسی وجہ سے 9 سرکاری جامعات وائس چانسلروں سے محروم ہیں۔ صوبائی حکومت نے اس کا توڑ پہلے سے ترمیم شدہ قانون میں ایک اور ترمیم میں ڈھونڈ نکالا ہے۔
پشاور سمیت صوبہ کی تمام سرکاری جامعات میں پہلے وائس چانسلروں کی تقرری خیبر پختونخوا یونی ورسٹیز ایکٹ 2012 کے تحت کی جاتی تھیں ۔ اس قانون میں تحریک انصاف کی حکومت نے مئی 2015 میں ترمیم کر دی۔
تاہم موجودہ ترمیمی ایکٹ میں وائس چانسلروں کی تقرری کے لیے جن شرائط کو شامل کیا گیا انہیں پورا کرنا صوبائی حکومت کے لیے درد سر بن گیا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ان میں بڑی شرط جو وائس چانسلر کی تقرری میں رکاوٹ ثابت ہوئی وہ 40 انٹرنیشنل ریسرچ پبلی کشنز ہیں۔
گزشتہ سال اکتوبر میں سرچ کمیٹی کے سامنے کئی امیدواروں نے قسمت آزمائی لیکن ایک بھی امیدوار اس شرط پر پورا نہ اتر سکا۔
وزیر اعلیِ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اعلیِ تعلیم مشتاق غنی کا کہنا ہے کہ وائس چانسلروں کی تقرری کا مجوزہ آرڈیننس مستعفی گورنر سردار مہتاب کو بھیج دیا ہے۔ جس میں انٹرنیشنل ریسرچ پبلیکشنز کی تعداد چالیس سے کم کر کے پندرہ کر دی گئی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے اور وائس چانسلروں کی خالی آسامیاں جلد پورا کرنے کی وجہ سے قانون میں ترمیم آرڈیننس کے ذریعے لائی جا رہی ہے۔