تحریر : وقار احمد اعوان دنیا میں جاپان واحد ایسا ملک ہے جہاں شرح خواندگی سو فیصد ہے، اس کے بعد دوسرا نمبر ناروے کا آ جاتا ہے۔اسی طرح یورپی ممالک و دیگر۔مگر افسوس کہ ایشیاء کے زیادہ تر ممالک اس دوڑ میں شامل نہیں۔اس کی وجوہات میں غربت، کرپشن اور خاص طورسے استاد کو پسماندہ رکھنا ہے۔ ماہرین کے مطابق جن جن ممالک میں غربت ،کرپشن اور استاد کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہو وہاں شرح خواندگی بھلا کیسے اور کیونکر سو فیصد ہو سکتی ہے۔ اب آپ جاپان ہی کی مثال لے لیں کہ وہاں استاد کی تنخواہ قریباً تمام محکمہ جات میں کام کرنے والے ملازمین سے زیادہ ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہوکہ وہاں شرح خواندگی سو فیصد دیکھنے کوملتی ہے۔
اس کے برعکس ملک خداداد میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ملک میں شرح خواندگی بیس سے پچیس فیصد بھی نہیں اورجس کی بڑی وجہ ماہرین اساتذہ کو غیر ضروری امورپر لگانامانتے ہیں۔جیسے حالات کی خرابی کے باعث اساتذہ کو پولیومہم میں مرنے کے چھوڑدیا گیا اسی طرح حالیہ کرایا جانے والا سروے کہ جس کی ذمہ داری پہلے ایک این جی او نے لی تھی،مگر کم فنڈز کی وجہ سے عین موقع پر ہتھیار ڈالنے پر مذکورہ سروے بے چارے اساتذہ سے کرایاگیا۔اورمرتا کیا نہ کرتا بے چارے اساتذہ اب تک کے نہ ملنے والے معاوضے پر سروے کو تکمیل تک پہنچانے کی حتی الوسعیٰ کوشش کررہے ہیں حالانکہ یہاں سوال یہ پیداہورہاہے کہ ملک خداداد میںکام کرنے والی مقامی اور خاص طورسے بین الاقوامی این جی اوز جب ذمہ داری نبھانے کی طاقت نہیں رکھتیں تو پھر بھڑکیاں مارتی کیونکر نظرآتی ہیں؟اسی طرح جہاں انہیں کروڑوں کے فنڈز میںاپنے عیش وآرام کا کوئی ذریعہ نظرنہیںآتا تو اپنی نااہلی دکھانے کی بجائے فنڈز میںکمی کا بہانہ تراش لیتی ہیں۔مگر مجال ہے جو صوبائی حکومت انہیںمزید کام کرنے سے روکے۔اس کے علاوہ ہمارے پالیسی میکر زمینی حالات کی جانکاری نہیںرکھتے۔یاپھر جان کر اساتذہ کو خوار کرنا چاہتے تھے۔کیونکہ یہ سب جانتے ہیں کہ جنوری سے مارچ تک بچوں کے امتحانات کے لئے تیاری کے دن ہوتے ہیں۔
ایسے میں تھکے ہارے اساتذہ کو مزید ذہنی کوفت دینا بھلا کہاںکا انصاف ہے؟حالانکہ ملک خداداد میںلاکھوں نوجوان لڑکے لڑکیاں بے روزگار ہیں اگر ان سے مذکورہ سروے کرایا جاتا تو یقینا سروے اطمینان بخش تصور کیا جاتا کیونکہ ہوسکتاہے کہ اساتذہ نے اپنی جان چھڑانے کے لئے اِدھر اُدھر کی معلومات دیے گئے فارمز میںفراہم کی ہوں اوریہ بھی ہوسکتاہے کہ اساتذہ ایمانداری کا لبادہ اوڑھ کر گھر گھر گئے ہوں اورفراہم کردہ معلومات بالکل درست اور صحیح ہوں۔اس لئے کچھ بھی ہوسکتاہے ،جب حکومت اساتذہ کے ساتھ اتنا گھنائونا مذاق کرسکتی ہے تو یقینا اساتذہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔خیربات ہورہی تھی گھر گھر سروے کی۔صوبائی حکومت ان تمام بچوں کے متعلق معلومات اکھٹاکرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو کسی وجہ سے سکول نہیںجاتے۔ہوسکتاہے اس حوالے ان بچوں کی مالی معاونت کی جانے کا ارادہ ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہ کہ فنڈز کے نام صرف کاغذی کاروائی ہی کی جارہی ہو۔کیونکہ جس اندازسے جلد ی میں سروے کیاگیا ہے اس سے تو یہی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ صوبائی حکومت صرف تعلیم کے نام پر کریڈیٹ حاصل کرنے کے چکر میں ہے۔ورنہ تو ایسے کام باقاعدہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ہی کرائے جاتے ہیں یوں اچانک سے اساتذہ کو یک روزہ تربیت دینا کہ اس میں اساتذہ کی اکثریت شامل ہی نہیں ہوئی اسی طرح تربیت کا حصہ بنے والے اساتذہ بھی عدم دلچسپی کا شکارنظرآئے تو ایسے میں سروے کیسا ہوا ہوگا ،اللہ جانے ۔صوبائی حکومت اگر واقعی میں سکول نہ جانے والے بچوں بارے مکمل معلومات اکھٹاکرنا چاہتی تھی تو ا س کے لئے پہلے مکمل ہوم ورک کیا جاتا۔
جیسے اگر اساتذہ ہی سے کرانا تھا تو انہیں سکول سے باقاعدہ چھٹیاں دی جاتیں تاکہ مکمل اور درست معلومات اکھٹی کی جاسکیں۔اسی طرح بے چارے اساتذہ کو نقد ٹھیک ٹھاک معاوضہ دیا جاتا مگر صرف جلدی میں انہیں تربیت دے کرسروے فارمز حوالہ کئے گئے۔ایسے میںسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد بارے بھلا کیا جانکاری حاصل ہوپائے گی۔خیر یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب بے چارے قوم کے معماروں کو گلی گلی،کوچہ کوچہ خوارنہ کیا گیاہو۔اس سے قبل بھی ان بے چاروں کو کبھی پولیو،تو کبھی خانہ ومردم شماری تو کبھی عام انتخابات وغیرہ کے لئے ستایا جاچکاہے۔حالانکہ ملک خداداد میں لاکھوں نوجوان لڑکے لڑکیاں بے روزگاری کی چکی میںبری طرح پس رہے ہیں حکومت کو تو پیسے کی بچت چاہیے اس لئے ان کے پاس اساتذہ کے سوا کوئی اورنہیں۔اس پر اساتذہ اگر بھول کر پروموشن طلب کرتے ہیں تو انہیں خاموش کر دیا جاتا ہے۔
KPK Students
ایسے میں شرح خواندگی بھلا کیسے بڑھائی جاسکتی ہے۔جب اساتذہ قرضے لے کر گزاراکرنے پر مجبور ہوں،اس پر تماشا کہ امسال اراکین صوبائی اسمبلی کی تنخواہوں میں 400فیصداضافہ کردیا گیا۔مگر مجال ہو کہ انہیں اساتذہ کی تنخواہوں اور ان کے گزر بسر کا علم ہو یا پھروہ جاننا نہیں چاہتے۔ہر چند کہ اساتذہ کی ڈیوٹی دیگر محکمہ جات کے ملازمین سے کم ہوتی ہے،جیسے سال میں تین ماہ کی چھٹی،اسی طرح دن میں چارسے پانچ گھنٹے ڈیوٹی،سال بھر چلنے والے امتحانات میںڈیوٹیاں وغیرہ۔یہ تو بھلا ہو گزشتہ دور میںعوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی وزیر تعلیم سرداربابک کاکہ جنہوںنے جاتے جاتے پرائمری سکول ٹیچر کو سکیل سات سے بارہ دے دیا۔یوں اونٹ کے منہ میں زیرہ برابرسے کام چلا لیا گیا۔
حالانکہ اساتذہ کو ہیلتھ الائونس کے جیسے ٹیچنگ الائونس دینا چاہیے تھا،کہ جس سے اساتذہ کی بنیادی تنخواہوں میںخاطرخواہ اضافہ ممکن ہوسکتا۔او ر جس سے ایک طرف پرائمری سکولوں میںپڑھانے والا استاد مناسب گزر بسر کے قابل ہوجاتا تو دوسری جانب وہ معاشرہ میںکھویا ہوامقام پانے میںخاطرخواہ حد تک کامیاب ہوجاتا جیسے ایک روایت کے مصداق کہ پرائمری سکول ٹیچر کولوگ سلام کرنا تو پسند کرتے ہیں مگر کوئی اسے اپنی بیٹی کا رشتہ دینا گوارا نہیںکرتا۔جیسے دیگر محکمہ جات میں بھرتی ہونے والاکلاس فور جوکہ ایک سکیل میںبھرتی ہوتاہے اس پرائمری استاد کے قریباً برابر تنخواہ وصول کررہاہے جو محکمہ تعلیم میںسکیل 12میںبھرتی ہواہے ،ایسے میں صوبائی حکومت شرح خواندگی میں خاطر خواہ اضافہ چاہنے کے چکر میںہے۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ صوبائی حکومت بے چارے دیگر گرتی ہوئی دیوار کو ایک اوردھکہ دے کر اوروں کی طرح قوم کے مستقبل کو تاریک بنانے میں اپنا بھی بھرپور حصہ ڈال لے۔