حکومت ، حکومت ، حکومت عوام اس پانچ لفظوں سے سخت نالاں ہیں۔ کیونکہ حکومت عوام کے لئے کچھ بھی نہیں کر رہی ہے ۔ روزگار نہ ملنے کی کہانیاں سن سن کر معاشرہ نہایت ہی دل گرفتہ رہتی ہے مگر جن لوگوں کو روزگار میسر ہے اب حکومت ان افراد کے روزگار سے منسلک اداروں کا بھی دیوالیہ نکال چکی ہے جہاں ملازمین کو تنخواہ دینے کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں۔ مختلف اداروں میں نوکری پیشہ لوگ پورے مہینے ایک ایک دن، ایک ایک لمحہ مہینے کی پہلی تاریخ کا انتظار کرتے ہیں کہ پہلی آئے گی تو تنخواہ میسر ہوگی اور وہ اس لئے کہ تنخواہ اور مہنگائی کا فرق ہمارے ملک میں دُگنا سے بھی زیادہ ہے۔
دوسرے معاملات کے علاوہ گیس، پانی، بجلی کا بل پھر اسکول کی فیسیں بھی اسی تنخواہ سے ادا کرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں سرکاری ملازمین کا حوصلہ ہے کہ انہیں جو گِنی چُنی تنخواہ ملتی ہے انہیں اُسی بالشت بھر چادر میں رہتے ہوئے اپنے تمام تر لوازمات کو پورا کرنا ہوتا ہے۔سرکاری ملازمین ویسے ہی شدید معاشی دبائو میں ہوتے ہیں اور مہنگائی سونامی کی سی تیزی سے عوام پر مسلط ہو رہی ہے۔ گوشت کو چھوڑیے ، دالیں اور سبزیوں کی نرخ آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ جام ، جیلی اور پھل فروٹ صرف دور سے ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔
ملک کا ایک طبقہ سرکاری و نیم سرکاری محکموں میں کام کرنے والے ملازموں کا ہے جو اس وقت شدید ترین معاشی دبائو کا شکار ہے اور ان کے لئے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا ناممکن ہو گیا ہے۔ اور اس پر دیگر محکموں کے ملازمین سمیت اب جامعہ کراچی بھی اپنے ملازمین کو تنخواہ کی ادائیگی سے محروم کر رہی ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ جامعہ کراچی کو فنڈز کی فراہمی تعطل کا شکار ہے اور ابھی تک گذشتہ سہ ماہی کی قسط بھی ایچ ای سی سے موصول نہیں ہوئی۔جو حکومتی افراد ایسے بیان دیتے ہیں کہ ملک میں حالات بالکل ٹھیک ہیں۔
ادارے بہترین کام کر رہے ہیں ان کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ بڑے اداروں کو چھوڑ کر اب تو ملک کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے جامعہ کراچی میں بھی فنڈز کی فراہمی روکی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ملازمین اور اساتذہ حضرات کو ماہِ فروری 2013ء کی تنخواہ سے محرومی کا سامنا ہے۔ جبکہ دیگر ریسرچ کے کام میں بھی شدید دشواری کا سامناہے۔ تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں نچلے گریڈ کے کتنے ہی ملازمین کے گھروں کے چولھے ٹھنڈے ہو جائیں گے تو کیا یہ ملازمین تنخواہ کی عدم ادائیگی کی صورت میں حکومت کو داد و تحسین سے نوازیں گے یا انہیں بُرا بھلا ہی کہیں گے۔ جامعہ کراچی کے تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب اس کے ملازمین کو وقت پر تنخواہ نہیں ملی۔
Karachi University
جامعہ کراچی چونکہ نیم سرکاری کے ساتھ ساتھ خود مختار ادارے کے زمرے میں بھی آتا ہے اس لئے جامعہ کراچی کے ارباب کو اس خودمختاری کا بھی فائدہ اٹھانا چاہیئے اور اپنی آمدنی میں اضافے کی تدبیر بھی کرنی چاہیئے۔ جب آپ کا خرچ پورا نہیں ہوگا تو لازمی امر ہے کہ آپ کے لئے فیسوں میں اضافہ ناگزیر تو ہوگا ہی۔ آپ اپنی جگہ صحیح ہیں کہ تعلیم سستی فراہم کرنا جامعہ کی ذمہ داری ہے مگر جب مالی مسائل بے حساب ہو جائیں تو فیسوں میں اضافہ ناگزیر ہوتاہے ، اس بات کی فکر مت کریں کہ فیسوں میں اضافے سے طالب علموں کے غیض و غضب کا سامنا ہوگا۔ آپ ہماری حکومت سے اس کا ہنر سیکھیں ، احتجاج، دھرنے ، ہڑتال سب ہی کچھ تو ان حکمرانوں کے خلاف عوام نے کیا۔
مگر مہنگائی آج اپنے عروج پر ہے ، سونے پر سوہاگہ یہ ہے کہ جاتے جاتے اس حکومت نے عوام کو ایک اور الوداعی تحفہ پیٹروم بم گرا کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ جامعہ کو چاہیئے کہ وہ سوائے ضروری اخراجات کے فضول خرچ کو روکے تاکہ آپ کے بجٹ میں ٹھہرائو آئے۔اور آئندہ کم از کم جامعہ میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی جیسے مسائل کا سامنا نہ ہو۔
آج ہمارے ملک میں جمہوریت کا راگ الاپہ جا رہا ہے کیا جمہوریت میں ناانصافیاں جائز ہیں۔ غریبوں کے نمائندہ کہلانے والے کی تنخواہ تو ماہانہ ایک لاکھ اسّی ہزار ہو (علاوہ الائونسز کے)اور ایک مزدور کو ساتھ ہزار روپے ماہانہ بھی میسر نہ ہوں۔ یہ کیسا انصاف ہے ، اگر یہی جمہوریت ہے توخاکم بہ دہن عوام اس جمہوریت سے بہت پریشان ہے ۔عوام کو تو ایسا ملک اور جمہوریت چاہیے جہاں امن ہو، سکون ہو، ہر شہری عزت دار ہو، جہاں سب کو باعزت روزگار میسر ہو، پانی، بجلی، گیس میسر ہو، اور مہنگائی کا شائبہ نہ ہو ، جہاں اداروں میں ملازمین کو ان کا محنتانہ مزدوری وقت پر دیا جائے، جہاں طاقتور عوام ہوں اور حکومتیں ان کی خدمتگار ہوں۔
جامعہ کراچی٢٩اکتوبر ١٩٥١ء میں کراچی شہر سے بارہ کلومیٹر دور بارہ سو اُناسی ایکڑزپر قائم کی گئی جو آج دنیا بھر میں اپنی منفرد تعلیمی نظام کی وجہ سے اپنا ایک شناخت رکھتی ہے۔ اس وقت جامعہ کراچی میںتقریباً انٹھاون شعبہ جات ،سات فیکلٹیز، سترہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹس کاپھیلا ہوا جال تعلیم کو عام کرنے میں کوشاں ہے ، اس کے علاوہ لگ بھگ سو کے قریب کالجز سے بھی جامعہ کراچی کا الحاق اس بات کی تصدیق ہے کہ جامعہ کراچی فروغِ تعلیم میں پاکستان کا نمایاں نام ہے۔ جامعہ کراچی میں پچیس ہزار کے قریب طلبا و طالبات اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شاید ایوننگ پروگرام کے طلباء و طالبات اس کے علاوہ ہوں اس کا صحیح علم نہ ہو سکا۔
اس کے علاوہ جامعہ کراچی کے نظام کو چلانے کے لئے تقریباً ایک ہزار اساتذۂ کرام اور لگ بھگ تین ہزار غیر تدریسی ملازمین اپنے فرائض تندہی سے نبھا رہے ہیں۔اور یہ اساتذۂ کرام بشمول غیر تدریسی ملازمین جامعہ کراچی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر آج نہ صرف ملک کی بلکہ ایشیاء کی اس سب سے بڑی جامعہ کو فنڈز کا نہ ملنا لمحۂ فکریہ ہے۔کیونکہ فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے آج جامعہ کے اساتذ ہ سمیت تمام ملازمین کو تنخواہوں سے تاحال محروم کر دیا گیا ہے۔آخر حکمران اور ان کے ارباب کیااس اعلیٰ تعلیمی ادارے کو زوال پذیر دیکھنا چاہتے ہیں؟جہاں ہماری نئی نسل تعلیم سے مستفید ہوکر ملک و قوم کا سرمایۂ افتخار بنتے ہیں، کیا ایچ ای سی جامعہ کو فنڈز فراہم کرنے کے معاملے میں روڑے اٹکا رہی ہے؟ یا پھر یہ سب عمل جانتے بوجھتے ہوئے دوسرے اداروں کے مصداق رچایا جا رہا ہے تاکہ یہاں بھی ہڑتالیں اور دھرنے جیسا عمل رونما ہو جائے۔
Ishrat Ul Ebad Khan Sahib
سندھ کے ہر دلعزیز گورنراور جامعہ کراچی کے محترم المقام چانسلر جناب عشرت العباد خان صاحب کی توجہ خاص یقینا اس جانب ہوگی کیونکہ جامعہ کے چانسلر ہونے کے ناطے ہر کڑے وقت میں انہوں نے جامعہ کراچی کی خبر گیری کی ہے اور کر رہے ہیں۔ ان سے یہ بھی درخواست ہے کہ اس فنڈز کے کمی کے معاملے کی گُتھی کو بھی سلجھانے میں جامعہ کی مدد کریں تاکہ جامعہ کراچی کے اساتذہ اور ملازمین کو کم از کم وقت پر ان کی تنخواہ ادا کی جا سکے۔
امید ہے کہ جس طرح آپ نے ہر مشکل وقت میں گورنر ہونے کے ناطے سندھ کے عوام اور چانسلر کے ناطے جامعہ کی اب تک خدمت کی ہے اس معاملے کا بھی فوری نوٹس لیکر جامعہ میں پھیلی ہوئی اور خاص کر نچلے گریڈ کے ملازمین میں پھیلی ہوئی بے چینی کا خاتمہ کریں گے۔آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہماری جامعہ کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور آپ کو بحیثیتِ چانسلر تادیر ہمارے جامعہ کے لئے خیر و عافیت کے ساتھ سلامت رکھے۔ آمین ، تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی