تحریر : ابن ریاض غسل خانے کے دروازے سے زور آزمائی کے بعد ہم سو گئے۔ تھکے ہوئے تو یقینًا تھے سو چند ہی لمحوں میں نیند کو پیارے ہو گئے۔ صبح تاخیرسے بیدار ہوئے۔ اچھا یہ ہوا کہ کھانا قریب سے ہی مل گئے۔ اب ہم نے کانگر/کنگار کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ اس کے لئے وسطی کوالالمپور جانا پڑے گا جو کہ کوئی تیس پینتیس کلومیٹر ہے وہاں سے۔۔ ہم نے کمرے سے سامان اٹھایا اور ٹیکسی لی جو کہ ہمیں ریلوے اسٹیشن لے گئی۔ ہم نے ٹکٹ لیا وسطی کوالا لمپور کا اور لگے انتظار کرنے ٹرین کا جو کہ تقریبًا بارہ منٹ بعد آنی تھی۔ اتفاق کچھ یوں ہوا کہ بارہ منٹ بعد ہی آ گئی۔ اپنے پیارے ملک میں ایسے اتفاقات ہمیں تو دیکھنے نصیب نہیں ہوئے۔ چھوٹا سا اسٹیشن تھا۔ جس پر دس بارہ مسافر تھے۔ پاکستانی ہم ہی تھے۔ کچھ بھارتی اور کچھ ملائی۔ ہم اپنے زادِ سفر سمیت ٹرین میں گھس گئے اور قریب ہی ایک خالی نشست پر براجمان ہو گئے۔ سامان اپنے سامنے رکھ لیا۔اپنے اردگرد نظر دوڑائی تو زیادہ تو لوگوں نے نصف بازئوں والی شرٹ اور شارٹس ہی پہن رکھے تھے اور اس میں مرد و زن کی کوئی تخصیص نہ تھی۔
ایک ہی لباس میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز ہم تو اپنے سامان کی فکر میں غلطاں تھے کہ اسے کچھ نہ ہو جائے۔ ہماری خیر ہے ، ہمین تو کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔ بلکہ کچھ عرصے تک اگر کچھ نہ ہو تو ہم فکرمند ہو جاتے ہیں کہ کچھ ہو کیوں نہینں گیا۔۔۔ اللہ خیر کریہم ریل کی کھڑکی سے باہر دیکھتے رہے۔دن کی روشنی میں پہلا تاثر یہ تھا کہ سبزہ بہت ہے۔ہر جگہ درخت اور گھاس۔ قریب ایک گھنٹے کے بعد ہم اسٹیشن اترے۔ پھر ایک ٹیکسی لی اور بس اڈے پر جا پہنچے۔’پرلس’ ملائشیا کی سب سے چھاوٹی ریاست ہے اور ‘کانگر’ اس کا دارالخلافہ۔ اسکے شمال میں تھائی لینڈ ہے۔اس کو بھی آپ ہمارے کشمیر کی طرح سمجھئےـباقی بارہ ریاستوں کے سلطان ہیں اور یہاں کا حکمران راجہ ہے۔گویا کہ ملایشیا تیرہ ریاستوں کا مجموعہ ہے۔
کانگر میں ہوائی اڈا نہیں ہے اور قریب ترین ہوائی اڈا ‘ایلور سیٹار’ شہر اور ریاست کیڈا میں ہے جو کہ تقریبًا چالیس پچاس کلومیٹر دور ہوا۔ جہاز کا سفر قریب ایک گھنٹے کا تھا اور آگے مزید ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ ریلوے اسٹیشن سے ہمیں پتہ چل چکا تھا کہ آج کی ٹرین بھی نکل چکی ہے سو ہماری قسمت میں بس ہی تھی۔ ہمیں بھی کچھ مسئلہ نہ تھا کہ ہمارے ایک دوست جن کی ماسٹرز کی ڈکری ملائشیا کی ہے، اس نے ہمیں بس سفر کا مشورہ دیا تھا تا کہ رستے بھر کینظاروں سے لطف اندوز ہونا۔ ہم نے بس کا ٹکٹ لیا اور کرنے لگے انتظار۔ ٹکٹ آفس سے پوچھا کہ کب کانگر پہنچیں گے تو کہنے لگا کہ چھ گھنٹے لگیں گے۔ نیٹ پر ہم پہلے ہی دیکھ چکے تھے کہ فاصلہ تقریبًا تین سو کلومیٹر ہے اور قریب چھ گھنٹے لگتے ہیں۔
Double Bus
بس ڈبل ڈیکر تھی اور نچلا حصہ صرف سامان کے لئے مختص تھا۔ ہم کچھ پرجوش بھی تھے کہ اس سے پہلے کبھی بس کے اوپرے کیبن میں بیٹھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ سامان رکھ کے ہم اوپر پہنچے۔ کنڈکٹر نے کہا کہ کوئی سیٹ نمبر نہیں، جہاں سینگ سمائے بیٹھ جائو۔ ہم سامنے والی دو والی سیٹ پر بیٹھنا چاہتے تھی کہ سامنے اور دائیں بائیں ہر طرف آنکھیں مار سکیں مگر پہلے ہی وہاں ایک خاتون براجمان تھی۔ ہم چاہتے تو وہاں بھی بیٹھ سکتے تھے مگر وہ کوئی خاتون کوئی اتنی حسیں بھی نہ تھی کہ ان کی خاطر ہم خود کو گناہ پر اکساتے۔ یہ جو سفر پر ہم مومن بنے رہتے ہیں، اس کی وجہ بھی یہی سمجھیے ہم بائیں طرف کی تنہا سیٹ پو بیٹھ گئے۔
وقت مقررہ کے عین چالیس منٹ بعد گاڑی چل پڑی۔ ڈرائیور ہر جگہ کے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں شاید۔ شہر سے نکلتے ہی پہاڑ، سبزہ اور دلکش نطارے شروع۔ ان کے ہاں موٹر وے نہیں ہے۔ عام سی دو رویہ سڑک ہے۔ اس کے باوجود نجانے ترقی کیسے کر لی انھوں نے؟چھ گھنٹوں کا سفر تھا جو کہ بآسانی آٹھ گھنٹوں میں طے ہو گیا۔ تین چار جگہ ڈرائیور نے گاڑی روکی۔ ایک جگہ تو ہم نے ظہرانہ لیا۔ باقی مقامات پر بس گاڑی سے اتر کے جسم سیدھا کیا اور کچھ ٹہل لیے۔ ڈرائیور نے تا ہم ہر مقام پر دو تین سگریٹ ضرور پیے۔
جب ہم کانگر پہنچے تو رات اتر چکی تھی۔ ہم نے ٹیکسی لی۔ اس نے پندرہ رنگٹ مانگے۔ ہم واماندہ بھی تھے اور علاقے سے نا واقف بھی۔ ہم رضامند ہو گئے مگر ہمارا ہوٹل( جو کہ ہم پاکستان سے ہی بک کر کے چلے تھے)ٹیکسی سٹینڈ سے بمشکل ایک کلومیٹر دور تھا اور پانچ منٹ میں ہم وہانں۔ ہمیں بہت افسوس ہوا اپنے ایسیلٹے جانے پر۔ اس سے تو ہمارے ٹیکسی ڈرائیور اچھے۔ ایسی گلیوں سے تو گزارتے ہیں کہ فاصلہ کم نہیں لگتا۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو سخت رش اور اشاروں والی شاہراہ پر سے گزارتے ہیں کہ بندے کو پیسے دیتے ہوئے لگے کہ ڈرائیور نے روپے حلال کیے ہیں۔