سعودی عرب اور پاکستان دو اسلامی ممالک، ایک امت مسلمہ کا روحانی مرکز اور دوسرا ایٹمی پاکستان دفاعی مرکز، دونوں کے رشتے اٹوٹ،پاکستان پر مشکل آئے تو سعودی عرب فوری ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور اگر سعودی عرب پر مشکل ہو تو پاکستان ساتھ دینے کا عزم کرتا ہے، دونوں ممالک کے مابین مثالی تعلقات ہیں،موجودہ حکومت میں پاک سعودی تعلقات میں مزید مضبوطی آئی اس میں سعودی عرب کے پاکستان میں سفیر نواف بن سعید المالکی کا بھی اہم ترین کردار ہے، وزیراعظم عمران خان جب الیکشن جیتے اور وزارت عظمیٰ کا حلف نہیں اٹھایا تھا تو نواف بن سعید المالکی نے بنی گالہ جا کر عمران خان کو مبارکباد دی تھی بعد ازاں عمران خان نے حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلا دورہ سعودی عرب کا کیا ااور اب تک وزیراعظم سعودی عرب کے پانچ دورے کر چکے ہیں، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں جس میں انہوں نے پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا تھا اور تحریک انصاف کی حکومت نے نہ صرف سعودی عرب بلکہ دیگر متعددممالک سے بھی پاکستانی قیدیوں کو رہا کروایا۔
وزیراعظم عمران خان نے چند روز قبل سعودی عرب کا دورہ کیا جس میں انہوں نے سعودی ولی عہد سے ملاقات کی، ملاقات میں وزیرا عظم عمران خان نے مشرق وسطی کے تنازعات اور اختلافات کو سیاسی اور سفارتی ذرائع سے حل کرنے کا مطالبہ کیا۔وزیراعظم عمران خان نے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی سٹریٹجک اہمیت پر زور دیتے ہوئے ان تعلقات کو امن ترقی اور خوشحالی کیلئے اہم پاٹنرشپ قرار دیا۔ وزیراعظم نے جی 20 کی صدرت سنبھالنے پر سعودی عرب کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ عالمی برادری میں سعودی عرب کی قیادت کے کردار کی عکاس ہے۔
وزیراعظم سعودی عرب کے دورہ سے واپس آئے اور اس کے بعد ملائشیا میں ہونے والی کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان ہوا تو پاکستان میں سعودی عرب کے خلاف پروپیگنڈہ کی فیکٹریاں کھول دی گئیں، وزیراعظم کے اس فیصلے کو سعودی عرب کے ساتھ جوڑ دیا گیا کہ سعودی عرب کے روکنے پر وزیراعظم کانفرنس میں نہیں جا رہے اس سے پاکستان کو بہت نقصان ہوگا،ایسا پہلی بار نہیں ہوا، ماضی میں بھی پاک سعودی تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی ناکام اور مذموم کوششیں کی گئیں جن میں دونوں اسلامی برادر ممالک کے دشمنوں کو منہ کی کھانا پڑی، پاک سعودی تعلقات کی مضبوطی کچھ عناصر کو ہضم نہیں ہو رہی یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے مابین اختلافات ڈالنے کے لئے بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے،وزیراعظم عمران خان اس سے قبل جب سعودی عرب گئے اور وہاں سے جنرل اسمبلی اجلاس میں جانے کے لئے سعودی ولی عہد نے وزیراعظم عمران خان کو اپنا خصوصی طیارہ دیاواپسی پر طیارے میں خرابی آئی اور وزیراعظم کو واپس نیویارک جانا پڑا اسوقت بھی ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیا گیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر کے ساتھ ایران کے حوالہ سے ثالثی کی بات کی جس پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان وزیراعظم سے ناراض ہوئے اور انہوں نے طیارہ واپسی کا کہہ دیا حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں تھا ،پروپیگنڈہ فیکٹریوں کے رد میں اسوقت حکومتی ترجمان آئے اور حقیقت بیان کی،اب بھی وزیراعظم نے ملائیشیا نہ جانے کا فیصلہ کیا تو ماضی کی طرح ہی نہ صرف پاکستان بلکہ سعودی عرب کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا اور اب بھی کیا جا رہا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ ملائیشیا میں ہونے والی کانفرنس میں سعودی عرب کو دعوت نہیں دی گئی حالانکہ یہ غلط ہے، سعودی عرب کو دعوت دی گئی،لیکن سعودی عرب اس میں شرکت نہیں کر رہا نہ صرف سعودی عرب بلکہ متحدہ عرب امارات،مصر بھی کانفرنس میں شامل نہیں ہوئے اور اب پاکستان بھی نہیں گیا،یہ بھی کہا گیا کہ اس کانفرنس میں او آئی سی کے متبادل کوئی پلیٹ فارم بنانے کا سوچا جا رہاہے اس پر پاکستان اور سعودی عرب کے خلاف اتنا زیادہ پروپیگنڈے کا طوفان کھڑا کیاگیا کہ ملائشین وزیراعظم مہاتیر محمد کو اپنے دفتر سے بیان جاری کروانا پڑا،وزیراعظم عمران خان نے مہاتیر محمد کو کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے حوالہ سے فون پر اطلاع دی جس کے بعد مہاتیر محمد نے سعودی ولی عہد شاہ سلمان سے رابطہ کیا ،دونوں رہنماؤں کے مابین ٹیلی فونک گفتگو میں ملائیشیا اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کا جائزہ لینے کے ساتھ مختلف شعبو ں میں انہیں مزید مضبوط بنانے کے امکانات پر غور کیا گیا۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے مہاتیر محمد سے گفتگو کے دوران زور دیا کہ مشترکہ اسلامی جدوجہد کا پلیٹ فارم اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی ہے۔ یہ پلیٹ فارم بے حد اہم ہے۔ یہ امت مسلمہ کی دلچسپی کے تمام اسلامی مسائل پر غورو خوض کے لیے اتحاد بین المسلمین کا ضامن ہے۔
یہ بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مہاتیر محمد کانفرنس کے بعد سعودی عرب کا دورہ کریں اور او آئی سی کے حوالہ سے خصوصی طور پر جو پروپیگنڈہ کیا اس پر سعودی عرب کو یقین دہانی کروائیں کہ ایسا کچھ نہیں بلکہ وہ ایسا کر بھی چکے ہیں،مہاتیر محمد نے پروپیگنڈے کا رد کرتے ہوئے کہا کہ ملائیشیا اسلامی تعاون تنظیم کے کردار کو اہم مانتا ہے۔ کوالالمپور کانفرنس کے انعقاد کا مقصد او آئی سی کی حیثیت کو کمزور کرنا نہیں۔ میں یہ بات شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ٹیلیفونک رابطے کے دوران بھی واضح کرچکا ہوں۔اس بات کے حامی ہیں کہ سعودی عرب اپنا قائدانہ کردارادا کرتا رہے۔ کوالالمپور کانفرنس مسلم دنیا کے مسائل کے حل میں اپنا سا حصہ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔سعودی فرماں رواشاہ سلمان بن عبدالعزیز کی رائے ہے کہ اس قسم کے مسائل پر دو، تین ممالک کا جمع ہوجانا ٹھیک نہیں۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن پر او آئی سی کے اجلاس میں بحث کی جانی ضروری ہے۔
یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ملائیشیا اسلامی تعاون تنظیم کی جگہ لینے کے حوالے سے بہت چھوٹا ہے۔ اس کی اتنی حیثیت نہیں ہے۔ملائیشین وزیراعظم کے اس رد عمل نے پاکستان میں جو طوفان بدتمیزی کھڑا کیا گیا تھا جھاگ کی طرح بہا کر لے گیا،دنیا جانتی ہے کہ پاک سعودی تعلقات میں جتنی مضبوطی آئی دشمنوں نے اتنے اختلافات پیدا کرنے کی کوششیں کیں لیکن دونوں ممالک کی قیادت متحد ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہے،سعودی عرب ہی ہے جس نے مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا، سب سے پہلے پاکستان کی موجودہ حکومت کو امداد سعودی عرب نے دی اس سے قبل بھی سعودی عرب پاکستان کی مدد کرتا رہاہے،پاکستان بھی جب سعودی عرب پر مشکل وقت آیا تو سعودی عرب کے شانہ بشانہ نظر آیا، پاکستان سعودی عرب کے ساتھ اپنے برادرانہ تعلقات کو بے حد اہمیت دیتا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین مشترکہ عقیدے، ثقافت، روایات، اقدار اور ورثہ کی بنیاد پر گہرے تعلقات استوار ہیں اور دونوں ممالک علاقائی و بین الاقوامی امور پر مشترکہ سوچ رکھتے ہیں۔دونوں برادر ممالک نے بین الااقومی اور علاقائی فورمزپر ہمیشہ ایک دوسرے کے موقف کی حمایت کی ہے۔
پاکستان سعودی عرب کے ساتھ ہر آزمائش پر پورا اترنے والی اپنی دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ دونوں برادر ممالک مذہب ،اخوت، تاریخ اور ثقافت کے اٹوٹ رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزنے پاکستا ن کے سعودی سفارتخانے میں علی خالد الدوسری کو میڈیا کی ذمہ داریا ں دی ہیں، علی خالد الدوسری دونوں ممالک پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی مضبوطی کے لئے ریڑھ کی ہڈی سے بھی بڑھ کر کردار ادا کریں گے،ارضِ حرمین شریفین مسلمانوں کا مرکز ہے اور سعودی عرب نے مسلمانوں کی قیادت ہمیشہ کی ہے، ماضی میں پاکستان اورعرب ممالک کے تعلقات کو کمزور کرنے کی سازشیں کی گئیں تھیں لیکن پاکستان کی موجودہ عسکری اور سیاسی قیادت نے ان سازشوں کو ناکام بنا یا ہے،پاکستان کسی ایسے اتحاد کا ہرگز حصہ نہیں ہوسکتا جس سے سعودی عرب کمزور ہویا جس کا مقصد سعودی عرب کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہو،ایک منی اسلامی کانفرنس کا انعقاد نامناسب ہے،اگر اس کانفرنس کا مقصد امت مسلمہ کے مسائل پر بات کرنا تھا تو اسے او آئی سی کے تحت کیوں نہیں منعقد کیا گیا؟پاکستانی قوم اور فوج ارضِ حرمین شریفین کی سلامتی اور استحکام کے لیے ہر وقت فکر مند رہتی ہے،ہمیں فخر ہے کہ پاکستانی فوج نے سعودی عرب کی فوج کی تربیت کی اور کر رہی ہے،پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ متعدد مرتبہ اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ سعودی عرب کے دفاع و سلامتی کے لیے پاکستان ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہے،پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی مضبوطی سے صرف اسلام اور مسلمان دشمن قوتیں ہی خوفزدہ ہو سکتی ہیں۔