تحریر : سید انور محمود بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو 3 مارچ 2016 کو پاکستانی اداروں نے حراست میں لیا اور 25 مارچ 2016 کو اس کا معاملہ منظر عام پر لایا گیا اور بتایا گیا کہ کلبھوشن یادیوایک بھارتی جاسوس ہے جس نے بلوچستان اور کراچی میں دہشتگردی کے زریعے سیکڑوں بے گناہ پاکستانیوں کو مروایا ہے۔ کلبھوشن یادیو کا مقدمہ آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں چلایا گیا۔ کلبھوشن نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ جس کے بعد قاعدے کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے کلبھوشن یادیو کو سزائے موت کا حکم دیا۔ بھارت نے کلبھوشن یادیو کو جاسوس ماننے سے انکار کیا اور کلبھوشن یادیو کی سچائی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستانی عدالت نے کلبھوشن یادیو کو پھانسی کی سزا سنائی تو بھارت کی پارلیمینٹ اور بھارتی وزیر خارجہ نے اس سزا کے خلاف کافی اودھم مچایا اور اب عالمی عدالت انصاف جاپہنچے ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے 29 مارچ 2016کو بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی 6منٹ کی ویڈیو میڈیا کو جاری کی تھی جس میںکلبھوشن یادیو نے اپنے تمام جرائم قبول کیے ہیں۔ دوسری باتوں کے علاوہ کلبھوشن یادیو نے اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ وہ 2013 کےآخر میں ’را‘ میں شامل کیا گیا، اس وقت سے بطور آفیسر بلوچستان اور کراچی میں دہشتگرد کارروائیاں کرواتا رہا ہے‘‘۔
بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھارتی پالیمینٹ سے خطاب میں کلبھوشن یادیو کو ’’بھارت کا بیٹا‘‘ قرار دیتے ہوئے پاکستان کو متنبہ کیا کہ اگر اس کی سزائے موت پرعمل کیا گیا تو یہ اقدام دو طرفہ تعلقات کیلئے نقصان دہ ہو گا۔ پہلی بات یہ ہے کہ کیوں بھارت کے کلبھوشن یادیو جیسے دہشتگرد بیٹے پاکستان کے بے گناہ شہریوں کا خون بہاتے ہیں۔ بھارت کا یہ دہشتگرد بیٹا اپنی زبان سےسینکڑوں پاکستانیوں کا قاتل ہونے کا اقرار کرچکا ہے، بھارت کا طرزعمل چوری اورسینہ زوری کے مترادف ہے۔لیکن بھارت کو یاد رہے پاکستان اینٹ کا جواب پتھرسے دے سکتا ہے، پاکستانی عوام کلبھوشن یادیواور طالبان دہشتگردوں کے ترجمان احسان اللہ احسان کوسزائے موت دینے کے حق میں ہیں اوربھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج کونسے تعلقات ختم کرنے کی دھمکی دے رہی ہیں، کیا سشما سوراج بتاینگی کہ گذشتہ ستر سال میں ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان وہ کونسا دن تھا جس دن کہا گیا ہو کہ آج پاکستان اور بھارت کے اچھے تعلق ہیں۔
آزادی کے پہلے دن سے آجتک بھارت میں حکومت کانگریس کی ہو یا بھارتی جنتا پارٹی کی لیکن ان دونوں پارٹیوں میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے پاکستان دشمنی۔ کانگریس کے زمانے میں پاکستان دشمنی کم تو کسی صورت نہ تھی لیکن اس میں کھل کر مسلم دشمنی کا اظہار نہیں کیا جاتا تھا۔لیکن جب سے بھارتی جنتا پارٹی گجرات کے قصائی نریندر مودی کی قیادت میں حکومت میں آئی ہے وہ کھل کر پاکستان اور مسلم دشمنی کا اظہار بھی کررہی ہے۔ بھارت اس وقت انتہا پسندوں کے پنجے میں ہے، وہ بھارت ہی کا منہ نوچ نوچ کر اسے مسخ کررہے ہیں، جس کا ثبوت کلبھوشن کی پاکستانی عدالت سے سزائے موت کے بعد بھارت کے انتہا پسندوں کا پاکستانی کپڑا بازار پر حملہ ہے۔ اس حملے کے بارئے میں خود بھارتی میڈیا نے بھی تسلیم کیا ہے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسند بے قابو ہو چکے ہیں اور پاکستان کے نام پر کہیں بھی ہلہ بول دینا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔انتہا پسندوں کے اس عمل سے پاکستان کا تو کچھ نہیں بگڑا مگر بھارتی سیکولرازم کا لبادہ ایک بار پھر اتر گیا۔ بھارت کے اعتدال پسندوں کو اب آگے بڑھ کر اپنے ملک کو بچا لینا چاہئے۔
پاکستان کی جانب سے کلبھوشن یادیو کو سزائے موت دینے کے خلاف بھارت نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا تھا جس کی عوامی سماعت 15 مئی کو ہوئی تھی جس میں پاکستان نے کلبھوشن کیس سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار کو چیلنج کیا تھا جب کہ بھارت نے کلبھوشن کی پھانسی رکوانے کی درخواست کی تھی۔ عالمی عدالت انصاف کے مطابق بھارت کی جانب سے کلبھوشن تک قونصلر رسائی کے لئے متعدد درخواستیں کی گئیں لیکن پاکستان کی جانب سے کہا گیا کہ دہشتگرد تک قونصلر رسائی نہیں دی جا سکتی اور معاملہ پاکستان کی فوجی عدالت میں چلا گیا۔ پاکستان نے جنوری 2017 میں بھارت سے کلبھوشن کے معاملے میں رہنمائی مانگی اور کہا کہ قونصلر رسائی بھارت کے جواب سے منسلک ہے۔ پاکستانی عدالت نے اپریل میں کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائی اور پاکستانی قوانین کے مطابق کلبھوشن یادیو کے پاس فیصلے کو چیلنج کرنے کے لئے 40 روز کا وقت تھا لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس نے اپیل کی یا نہیں۔ عالمی عدالت انصاف کے جج کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت انصاف کلبھوشن کیس سننے کا اختیار رکھتی ہے لیکن کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی کے حوالے سے دونوں فریقین کی مختلف رائے سامنے آئی ہیں تاہم بھارت ہمیں کیس کے میرٹ پرمطمئن نہیں کرپایا اور عالمی عدالت انصاف صرف اسی صورت میں فیصلہ سنا سکتی ہے جب اختیار ثابت کیا جاسکے۔
اول تو عالمی عدالت انصاف کو یہ کیس سننا ہی نہیں چاہیے تھا ، عالمی عدالت انصاف نے پاکستان سے کہا کہ کیس کا فیصلہ آنے تک کلبھوشن کو پھانسی نہ دی جائے اور پاکستان میں کلبھوشن یادیو کی جان کو لاحق خطرات اور تحفظات دور کئے جائیں۔ اس کے علاوہ عدالت نے اپنے ابتدائی فیصلے میں کہا کہ ’’ویانا کنوینشن کے آرٹیکل 36 کے تحت جاسوس بھی دیگر گرفتار افراد کی حیثیت میں آتے ہیں اور بھارت کو کلبھوشن تک قونصلر رسائی بھی ملنی چاہیئے اور کلبھوشن یادیو کو ویانا کنویشن کے تحت قیدیوں کو حاصل تمام حقوق ملنے چاہئیں‘‘۔ پاکستان کو عالمی عدالت انصاف کی یہ بات ماننے سے پہلے عالمی عدالت انصاف سے کہنا چاہیے کہ عدالت بھارت سے یہ تسلیم کروائے کہ بھارتی حکومت نے کلبھوشن یادیو کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بے گناہ پاکستانیوں کے قتل کےلیے پاکستان بھیجا تھا، وہ ایک بھارتی جاسوس ہے۔پاکستان کو دنیا کو بھی بتانا چاہیے کہ کلبھوشن یادیو سیکڑوں انسانوں کا قاتل ہے اس کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔
یاد رہے جب روس نے امریکی جاسوس طیارہ یوٹو گرا کے پائلٹ پر جاسوسی کا مقدمہ چلایا تو امریکہ نے بھی عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹ کھٹایا تھا تاہم روس نے اسے اپنی سلامتی کا معاملہ قرار دے کر عالمی عدالت انصاف کی ایک نہ سنی اور پائلٹ گرے پاورز کو تیرہ سال سخت کی قید سنا دی تھی۔کل جب کلبھوشن یادیو کے سلسلے میں عالمی عدالت انصاف اپنا فائنل فیصلہ سنائے گی تو ہماری سلامتی کے خلاف کیسے فیصلہ دے گی اور یہ اختیار اسکو حاصل بھی نہیں۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن کو دی جانے والی سزا پرعمل درآمد وقت کا تقاضا ہے، پاکستان کی حکومت بھارتی دھمکیوں میں آنے کے بجائے انصاف کے تقاضے پورئے کرئے۔
کلبھوشن پاکستان کا مجرم ہے، اور وہ اقبال جرم کرچکا ہے، کلبھوشن یادیو پاکستان کی سلامتی سے کھیل رہا تھا۔ پاکستان کے 20کروڑ عوام اپنے بہن بھائیوں کے قاتل کو پھانسی کے پھندے سے جھولتا دیکھنے کے منتظر ہیں، سینکڑوں پاکستانیوں کے قتل کے اقبالی مجرم کو لازمی سزا ملنی چاہیے یہ ہی پاکستان کے عوام کی مانگ ہے۔