تحریر : قادر خان یوسف زئی معصوم بچوں کی مسکراہٹوں اور اُن سے وابستہ امیدیں کو اگر دیکھنا ہو تو اپنے جگر گوشوں کو اپنی نظروں کے سامنے بیٹھاکر اور اس کے فرشتے جیسے معصوم چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیکر اُس کا ماتھا چومیں تو دل میں اٹھنے والے سمندر کی لہروں سے بڑی شفقت و محبت آپ کی روح میں سر تا پیر دوڑ جائیں گی۔ میں اس وقت اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کررہاہوں ۔ لیکن سانحہ اتنا بڑا ہے کہ میں اسے دوبارہ بیان کرنے کے لئے دلی تکلیف و ذہنی اذیت سے گذر رہا ہوں۔ گزشتہ دنوں افغانستان میں قندوز کے علاقے دشت آرچی پٹھان آباد ‘ میں امریکا و افغان فورسز و بھارتی ہیلی کاپٹروںنے کے ایک مدرسہ ‘ ہاشمیہ عمریہ ‘ پرحملہ کیا ۔جہاں طالب علم ختم بخاری شریف کی تقسیم اسناد کی تقریب میں دستار فضیلت باندھے شریک تھے ۔ 150سے زاید معصوم احفاظ قرآن امریکا ،کابل و بھارت گٹھ جوڑ بربریت کا نشانہ بن گئے ۔ دہل دہلانے والی تصاویر اور ویڈیوز نے ہر انسان دوست کی آنکھوں کو اشکبار کردیا ۔ معصوم بچوں کا صرف یہ قصور تھا کہ یہ طالبان ( مدرسے کے طالب علم ) تھے ۔ جارح کے نزدیک ہر وہ شخص طالبان ہوتا ہے جو مدرسے میں تعلیم حاصل کرتا ہے ۔ کیونکہ سوویت یونین کے خلاف اٹھنے والی مزاحمتی تحریک بھی مدارس کے طلبا ( طالبان) نے اٹھائی تھی یہی وجہ ہے کہ امریکا و بھارت او ر مغربی بلاک کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو طالبائنزیشن سے نتھی کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی امریکی ڈرون حملوں میں کئی مدارس نشانہ بن چکے ہیں۔2007میں خیبر پختونخوا کے علاقے باجوڑ ایجنسی میں ڈماڈولہ کے مقام پر امریکی حملے میں مدرسے کے80طالب علموں کو شہید کردیا گیاتھا۔ 2013میں بھی ہنگو کے ایک مدرسے پر امریکا نے فضائی حملہ کیا ۔ ڈما ڈولہ حملے کا جواز بتایا گیا کہ اس مدرسے میں خود کش حملہ آورو ں کی تربیت کی جا رہی تھی اور یہ مدرسہ خودکش حملہ آوروں کی تربیت گاہ تھا۔ ڈما ڈولہ کے مدرسے میں سینکڑوں خود کش بمباروں کی تیاری کی خبروں پر فرانس سے ڈرون حملوں پر تحقیقات کرنے والی ایک انوسٹی گیشن جرنلسٹ ٹیم پاکستان آئی اور ڈماڈولہ میں مدرسے پر ہونے والے ڈرون حملے کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کیا ۔ ان کے پاس سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع سے مہیا کردہ کچھ معلومات تھی ۔ ٹیم کے مطابق(جاں بحق) ایس پی چوہدری اسلم نے انہیں بتایا تھا کہ اس مدرسے میں کراچی سے تعلق رکھنے دو ایسے طالب علم بھی تھے جو اس حملے میں زندہ بچ گئے تھے باقی سب مارے گئے تھے ۔ ان بچوں کا تعلق پختون آبادیوں سے بتایا جارہاتھا۔ غیر ملکی صحافیوں کے ساتھ مختلف اسائمنٹ پر کام کرنے کے تجربے کی بنا پر مجھ سے بھی رابطہ کیا گیا۔ فرنچ صحافیوں نے دو طالب علموں کے نام کے ساتھ مدرسے کا نام بھی بتایا لیکن ان کی معلومات قیاس آرائیوں پر مبنی تھی۔ لیکن میرے لئے یہ انکشاف حیران کن تھا ۔ راقم نے کئی روز کی تحقیق اور چوہدری اسلم سے رابطے و موصولہ معلومات کے بعد بالا آخر ایک بچے کا سراغ لگا لیا ۔پھر اُس بچے کے والد تک پہنچے ، بچے کا والد فٹ بال کوچ تھا۔ جو کراچی کے پوش علاقے میں کوچنگ کیا کرتا تھا ۔ بچے کے والد انٹرویوکے لئے اس شرط پر تیار ہوگئے کہ ان کی شناخت ظاہر نہیں کی جائے گی۔
ہم نے بھی وعدہ کرلیا ۔کراچی کے پوش علاقے میں بنے بنگلوز کے گیسٹ ہائوس میں اس بچے سے ملاقات کی اور اس کے والد سے تفصیل سے سوالات پوچھے ۔ ڈرون حملے میں بچ جانے والے بچے نے بتایا کہ اس کے چچا نے والدین کی اجازت کے بغیر اُسے مدرسے میں داخل کرادیا تھا ۔ جہاں حملہ ہوا تو وہ بھی زخمی ہوگیا تھا ۔ زخمی بچے کی نشان دہی پر گرفتار ہوا اس کے خلاف قانونی کاروائی کی گئی اور اسے سزا بھی ملی تھی۔ فرنچ صحافی کے ساتھ راقم مہیا معلومات پر کراچی کے مخصوص مدارس گیا ۔ خاص طور اُن مدارس میں جن پر الزام تھا کہ وہ بچوں کی برین واشنگ کرتے ہیں ۔ ہم کئی بچوں اور ان کے والدین سمیت مدرسے کے اساتذہ سے بھی ملے ، اندرونی و بیرونی کئی مدارس کی تصاویر بھی اجازت و بنا اجازت بھی لیں ، لیکن کسی بھی مدرسے میں ایسے کوئی آثار نظر نہیں آئے کہ ان میں کوئی غیر قانونی طور پر ٹریننگ کیمپ بنا ہوا ہو۔ ساتھی صحافی مایوس تھے کہ انہیں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے تاہم ڈرون حملے میں بچ جانے والے طالب علم اور اس کے والد کا انٹرویو ان کے لئے کافی اہم تھا ۔
مدارس سے متعلق پھیلائی جانے متعدد افواہوں میں نہ جانے کتنی صداقت ہو ۔ لیکن دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ مدارس دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی نیٹ ورک ہے جہاں بھاری فیسوں کے بجائے صاحب ثروت افراد کی مالی امداد اور بعض مدارس کو حکومت کی جانب سے مالی اعانت ملنے کے سبب لاکھوں بچے ابتدائی تا مکمل دینی و عصری تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بلکہ ایسے کئی بیٹھک مدرسے بھی دیکھے جہاں مدراس کے اساتذہ دینی و عصری تعلیم دیتے اور حکومت سے منظور شدہ این جی اوز انہیں معمولی مالی معاوضہ بھی دیا کرتی۔ ایسے مدارس بھی دیکھے جہاں مولوی حضرات این جی اوز سے تنخواہ لیکر طالب علموں کو دینی و عصری تعلیم مفت فراہم کرتے ۔ جس سے ان کے گھریلو مالی حالات میں تبدیلی بھی آئی۔ عموماََایک مدرسے کے مولوی کی ماہانہ تنخواہ چھ سے پانچ ہزار روپے بتائی جاتی ہے۔ مجبوراََ وہ جمعہ و عیدین کی نماز کے بعد اپنے گھریلو اخراجات چلانے کے لئے نمازیوں سے چندہ اکھٹا کرتا ہے ۔ رمضان میں تراویح پڑھا کر آمدنی حاصل کرتا ہے۔
شہری علاقوں میں تو ہمارے پختون علاقوں کی طرح رواج نہیں ہے کہ جہاں امام مسجد کی دنیاوی ضروریات گائوں کے رہائشی مل جل کر پورے کرتے ہیں۔ مدارس دنیا کی سب سے بڑی این جی او ہے جہاں لاکھوں طلبا و طالبات دن رات ہوسٹل میں رہتے ہیں اور دینی و عصری تعلیم کا حصول و تکمیل بلا معاوضہ پوری کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں شدت پسندوں نے حملہ کرکے 16دسمبر کو 150کے قریب معصوم بے گناہ طالب علموں کوشہید کرکے اپنی بربریت کا نشانہ بنایا ۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ شدت پسندوں نے متعدد اسکولوں کو بھی بارود خیز مواد مواد سے تباہ کیا ۔ افغانستان کے ایک ایسے اسکول کے پاس صاف پانی میں زہر ملایا دیا تھا جس میں طالبات زیر تعلیم تھیں ۔ زہر خوارنی کے سبب 150معصوم بچیوں کی حالت خراب ہوئی۔ اب تو افغانستان میں کابل فورسز نے خود ایسے سرکاری اسکولوں پر قبضہ کرکے چوکیاں بن لی ہیں جہاں عصری تعلیم دی جاتی تھی ۔ اب اگر ان مورچوں پر مزاحمت کار حملہ کرتے ہیں تو یہ اب سرکاری اسکول نہیں رہے بلکہ کابل و امریکی افواج کی مسلح چیک پوسٹ وچھائونی کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ لیکن ان واقعات کو ایسے عناصرسے جوڑ دینا مناسب نہیں ہے جو حقیقی طور پر اسلام کے امن و سلامتی کے پیامبر ہیں۔ قندوز میں نہتے اور بے گناہ احفاظ القرآن معصوم بچوں پر وحشیانہ بمباری کے لئے یہ جواز تراشنا انتہائی گمراہ کن پروپیگنڈا ہے کہ یہاں امارات اسلامیہ کے آئمہ اکرام بھی موجود تھے۔ قندوز میں امریکا، کابل اور بھارتی ہیلی کاپٹرز کے بے رحمانہ حملے میں تادم تحریر ایک بھی ایسا افغان طالبان رہنما زخمی و جاںبحق نہیں سامنے لایا گیا جو امریکی فوج کے نزدیک دستار فضلیت کی تقریب میں شریک تھا ۔ کابل، بھارت اور امریکی حکومت کی جانب سے اس قسم کی کاروائیوں سے افغانستان میں امن کبھی نہیں آسکتا ۔ کیونکہ ردعمل بھی بڑا سخت دیا جاتا ہے ۔
افغانستان میں عام انتخابات گزشتہ تین برسوں سے التوا کا شکار ہیں ۔ کابل حکومت نے اس برس اکتوبر میں عام انتخابات کرانے کا دوبارہ وعدہ کیا ہے ۔ لیکن قرائن و شواہد اظہر من الشمس ہیں کہ کابل حکومت جانتی ہے کہ ماضی کے دھاندلی کی بدترین تاریخ دہرائے جانے والے انتخابات کا انجام کیا ہوا تھا ۔ قیاس یہی کیا جاتا ہے کہ کابل حکومت افغانستان میں امن قائم ہی نہیں کرنا چاہتی اس لئے ازخودمسلسل ایسے واقعات کرائے جاتے ہیں جس سے دنیا میں پیغام جائے کہ افغانستان میں انتخابات کے لئے ماحول سازگار نہیں ۔ کابل حکومت اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لئے اتحادی افواج کو غلط معلومات دینے سے بھی گریز نہیں کرتی ۔ قندوز سانحہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتا ہے۔امریکی صدر نے شام کے حوالے سے اپنی افواج کو شام سے واپس بلانے کا عندیہ ظاہر کیا ہے کہ شام کی مہنگی جنگ امریکی مفاد میں نہیں ہے ۔ لیکن افغانستان میں جنگ ، امریکی کی تاریخ کی مہنگی ترین لاحاصل جنگ ہونے کے باوجود کیونکر جارح ملک میں مفاد میں ہے اس کا جواب امریکی صدر ٹرمپ سمیت ان کے تمام اتحادیوں کے پاس نہیں ۔ معصوم بچوں کو بربریت کا نشانہ بنا کر کیا افغانستان میں امن کی خواہش اور افغان طالبان کو مذاکرات پر لانے کا ڈھونگ اپنے انجام کو پہنچ سکتا ہے۔یقیناََ نہیں ۔ خاص طور پر بھارت کے ہیلی کاپٹرز نے نہتے مسلم حافظ القرآن بچوں پر بربریت میں حصہ لیکر اپنے انتہا پسند سوچ کو مزید پھیلا دیا ہے جو خطے میں امن کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔یہیں سے واضح ہوجاتا ہے کہ امریکا کیوں چاہتا تھا کہ بھارت افغانستان میں اپنا کردار بڑھائے۔