تحریر : ڈاکٹر نسیم افروز عالم سے میری پہلی ملاقات غالباً کویت کے مشاعرے میں ہوئی تھی جہاں ایک شخص کو کچھ شعراء کی مدارات و ضیافت میں مشغول دیکھ کر محسوس ہوا کہ واقعی شاعر ہیں، چونکہ شعراء میں رواداری، پاسداری وضع داری، خلوص محبت بڑی حد تک اب بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ2014کی بات ہے جب ہم کویت گئے جہاں اقبال اشہر ؛ ماجد دیوبندی ، ندیم نیر، شائستہ ثنا، ندیم شاد، ندیم فرخ، عثمان مینایٔ ، وغیرہ موجود تھے۔ میری صدارت رکھی گئی تھی مشاعرہ بہت کامیاب رہا ؛ افروز عالم کی نظامت ، شاعری ،دامے درمے قدمے سخنِ والی صلاحیت سے میں روشناس ہوئی اچھا لگا، فیس بک پر ہم دونوں پہلے سے ہی جڑے ہویٔے تھے اس لئے پھر میں نے انہیں فرینڈس میں شامل کر لیا اور اس طرح ان سے اکثر بات چیت ہونے لگی پھر دو بارہ کویت جانا ہوا اور پھر ہندوستان کے کئی مشاعروں میں بھی ملاقات ہوئی۔ میں نے پایا کہ افروز عالم کویت کی عصری ادبی سرگرمیوں کا خاص محرّک ہیں۔ خوش فکر، خوش مزاج، خوش گفتار ، خوش کلام، تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ وہ پرفیوم کی تجارت سے وابستہ ہیں۔ وہ رسائل میں برابر چھپتے رہتے ہیں۔ وہ کتابیں مرتّب بھی کرتے ہیں۔ افروز عالم کے یہاں بدن کے موضوع پر اکثر اشعار ملتے ہیں جیسے۔ واقعہ یاد ہے جب عالم تنہائی میں ہاتھ میرے تھے ترے بندِ قبا رات گئے
افروز عالم کی غزل میں اور بھی کئی انداز سے رنگا رنگی واضح ہے ان کے یہاں عشق کر سرمستی بھی ہے اور گلشن کی ہواؤں کی تازگی اور مہک بھی ہے جہاں جذبات کسی خاص سمت کا تعین کرتے ہیں۔ دراصل تخلیقی ذہن رکھنے والے اپنے عہد سے پہلے بالغ نظر ہو جاتے ہیں۔ شاعر ویسے بھی بہت آگے تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس صورت میں افروز عالم کی شاعری اہمیت رکھتی ہے۔افروز عالم کو نظم ونثر دونوں پر یکساں قدرت حاصل ہے۔ انہوں نے حمدو مناجات و نعت و منقبت سے لے کر نظمیں قطعات اور گیت بھی تخلیق کئے ہیں لیکن غزل ان کا خاص میدان ہے۔ وہ لفظوں کے تخلیقی استعمال سے خوب واقف ہیں۔ وہ آمد اور آورد دونوں طرح کے شعر کہتے ہیں وہ اپنے ذاتی تجربات میں قارئین کو شامل کر لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ زبان و بیان اور طرز واسلوب کے اعتبار سے وہ روایت کے پاسدار نظر آتے ہیں لیکن موضوع اور لب ولہجہ پر نظر ڈالیں تو جدید رنگ بھی بہت واضح نظر آتا ہے۔ ان کی آپ بیتی میں جگ بیتی بھی شامل ہے۔ افروز عالم رومانی دنیا کے ایسے فرد ہیں جو جذباتی نشیب وفراز سے گزرتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر شاعری عشقیہ ہے؛ ہونی بھی چاہئے بزرگ شعراء اور ناظم ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ اگر کم عمر شاعر بہت سنجیدہ کلام کہے یا بزرگ شاعر رنگین کلام پڑھے تو یہ بہت غلط انداز مانا جاتا ہے۔ افروز والم نے شعر گوئی کا اپنا راستہ خود نکالا ہے۔ اظہارِمحبت پہ عجب ردِعمل ہے لمحات میں برسوں کے بھرم ٹوٹ رہے ہیں
افروز عالم کے لہجے میں نرمی اور تازگی کا احساس ہوتا ہے ، غزلوں میں الفاظ اور تراکیب کا خوبصورت استعمال ملتا ہے، ان کی شاعری کا مطالعہ ایک خوش کن تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ آپ اپنے ہم عصروں میں ایک منفرد مقام حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہیں۔ وقت کے سانچے میں ڈھلنے کا ہنر رکھتے ہیں ہم تو ہر آگ کو سہنے کا ہنر رکھتے ہیں ریگزاروں کے درمیان جو فنکار اردو زبان و ادب کی خدمت میں مصروف ہیں ان میں وہ ایک ایسے شاعر ہیں جن کے یہاں انفرادی تاثرات بہت ملتے ہیں۔ ان کے بعض تاثرات فنّی مہارت اور جسارت کے ساتھ جلوہ بکھیرتے ہیں۔ افروز عالم کی شاعری میں تازگی ہے حسنِ غزل ہے، احساس کی سچائی ہے، جذبات کی شدت ہے، بہت سادہ لفظوں میں شعر کہہ لینا بھی ایک بڑا فن ہے۔ ان کے یہاں حسن بیان ہے۔ ان کی غزلوں میں رومانیت کی موسیقیت بھر پور ہے۔ میں نے تو اپنے ہاتھ سے بانٹے تھے سب کو پھول یہ کون میری راہ کو کانٹوں سے بھر گیا
Afroz Alam Poet
کویت میں افروز عالم اردو ادب سے بے پناہ محبت کرنے والے شاعر ہیں۔ ان کے مزاج میں خلوص ہے، معصومیت ہے اور یہاں کے ادبی حلقوں میں بے پناہ مقبول بھی ہیں۔ الفاظ کے سائے ان کی پہلی شعری کاوش ہے۔ افروز عالم کی نظر حالات حاضرہ پر کافی گہری ہے وہ سماجی ، سیاسی و ثقافتی حالات سے پوری طرح باخبر ہیں۔ ان کے یہاں انسانیت کی پائمالی کا دکھ ہے۔ ان کی شاعری ابتداء سے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے جس سے قاری ایک ٹیس سی محسوس کرتا ہے اور اس درد میں شریک ہو جاتا ہے جس میں شاعر خود ڈوبا ہوا ہوتا ہے چند اشعار بہت خوب ہیں۔ کچھ ساتھ نبھانے کا تقاضہ بھی نہیں ہے یوں تم سے بچھڑنے کا ارادہ بھی نہیں ہے لپٹ نہ جائیں کہیں خار بڑھ کے دامن سے کلی کو چاہئے دامن بچا بچا کے چلے کھلا کھلا سا ہے چہرہ سبک سبک سا بدن وہ اپنی آگ میں جلنے کے فن سے واقف ہے زندگی ہے کہ آگ کا دریا شدت غم سے مر نہ جائیں کہیں اخلاق کے ثمر سے مہکی ہوئی ہیں شاخیں چاہت کی بھینی خوشبو چھلکے گی اس شجر سے غزلوں کے بدن پر رہیں الفاظ کے سائے کچھ درد بھی اشعار میں ڈھل جائے تو اچھا اس کے علاوہ انہوں نے نظموں میں بھی طبع آزمائی کی ہے نعت اور منقبت میں بھی کام کیا ہے اور کتابیں مرتب کرنے کا کام بھی انہوں نے سنبھال رکھا ہے۔ جس میں فصلِ تازہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جو اربابِ فکر وفن کویت نے شائع کی ہے۔ افروز عالم بات کھلے طور پر کرنے کی ہمت رکھتے ہیں اسی طرح اپنے عزم و ہمت کو سامنے لانے اور اپنے اندر موجود صلاحیتوں کے اظہار میں بھی وہ بے باکی سے کام لیتے ہیں۔ دل کی بستی ہے مری شہر خموشاں جیسی اب تو تنہائی میں تہوار گزر جاتا ہے کون اس دور میں عالم کی چکائے قیمت مفت ہے سن کے خریدار گزر جاتا ہے جاگا ہوا ہے موسم دریا چڑھا ہوا ہے آؤ تمہیں چھپالوں ہر اک بری نظر سے
ان کے تعلقات کا دائرہ وسیع ترین ہے۔ انہوں نے بہت جلد غزل کے مزاج کو سمجھ لیا ہے۔ ان کے اشعار میں گداز بھی ہے جو عشق کا اہم پہلو ہے وہ غزل کو برتنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ وہ صرف کلاسیکیت پر ہی نگاہ نہیں رکھتے بلکہ تاریخی حوالوں کا ذکر بھی کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کے یہاں طنز بھی ہے اور مسائل کا حل بھی ہے۔ ہے احتیاط میں ڈوبا ہر ایک حرف اس کا وہ خط بھی لکھتا ہے مجھ کو تو شاعری کی طرح اظہارِ محبت پر عجب رد عمل ہے لمحات میں برسوں کے بھرم ٹوٹ رہے ہیں میں اپنے ہی جنوں سے اک نیا عالم بناؤں گا مجھے پابند کرتے دائرے اچھے نہیں لگتے ان کے یہاں بدن کی شاعری پورے شوق سے اور جستجو کے ساتھ ملتی ہے اگرچہ بعض اوقات ان کے اشعار میں کچھ زیادہ ہی ایسے عکس ملتے ہیں لیکن ایسی شاعری تو روایتی شاعری کے عہد سے پہلے ہی سے موجود ہے ۔اس موضوع پر بہت معیاری اور دلکش اشعار ملتے ہیں اور یہ بھی انسانی جذبات کا ایک اہم پہلو ہے۔ افروز عالم کے یہاں بھی ایسے اشعار موجود ہیں۔ میری سانسوں میں ترے جسم کی خوشبو ہے بسی دل میں جوشور مچاتی ہے صدا رات گئے آج تک نکلے نہیں ہم خواہشوں کی قید سے کیسے ہم تم کو بتائیں کیا ہے اندر کی مہک اڑی بدن کی جو خوشبو تو پھیلتی ہی گئی قبا میں قید تھی نزہت کسی کو کیا معلوم وہ شام ہوتے ہی یوں میراہاتھ چھوڑے گا یہی ہے حسن کی عادت کسی کو کیا معلوم
افروز عالم کی غزل میں اور بھی کئی طرح کے رنگ بکھرے ملتے ہیں۔ ان کے یہاں اچھے شعر بھی ہیں اور کم اچھے بھی لیکن یہ پہلی منزل کا سفر ہے اس راہ پر رفتہ رفتہ آگے چلنے پر صرف اچھے اور بہت اچھے اشعار ہونے لگتے ہیں ابھی تو ان کی ابتدائی منزل ہے آگے چل کر وہ یقینا اپنا الگ معیاری مقام بنا ہی لیں گے۔ ان کے سامنے وسیع میدان ہے اور ہمت جواں ہے، ذہن تازہ ہے، اڑان اونچی ہے ،حوصلہ بلند ہے، شوق اور لگن عروج پر ہے۔ کشتیوں سے اتر نہ جائیں کہیں لوگ طوفاں سے ڈر نہ جائیں کہیں ان کے یہاں کرب تنہائی یاس و حسرت بھی ہے جو کہ وطن سے دور رہنے والوں کے یہاں مشترک ہے۔ ان کا تخلیقی عمل جاری و ساری ہے اور امید ہے کہ رفتہ رفتہ ان کی شاعری اور دھارد ارہو جائے گی اور وہ آسمان ادب پر درخشندہ ستارہ بن کر چمکتے رہیں گے۔