کویت (اصل میڈیا ڈیسک) کویت میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اس مرتبہ کوئی خاتون امیدوار کامیاب نہیں ہوسکی تاہم منتخب ہونے والے اراکین میں تقریبا ً نصف تعداد غیر سرکاری اپوزیشن گروپوں سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔
کویت میں حکام کی طرف سے اتوار کے روز جاری کردہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے مطابق انتخابات میں صرف مرد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں اور اس بار ایوان میں کوئی بھی خاتون رکن نہیں ہوگی۔ 50 رکنی پارلیمان کے انتخابات لیے کل 326 امیدوار میدان میں تھے جن میں سے 29 خواتین تھیں تاہم اس بار کسی بھی خاتون کو کامیابی نہیں ملی۔
ایک خاتون رکن مستقل انتخاب میں کامیابی حاصل کرتی آئی تھیں تاہم اس بار انہیں بھی شکست ہاتھ لگی اور اس طرح سن 2012 کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا جب کویت کی پارلیمان میں کوئی بھی خاتون رکن نہیں ہوگی۔ کویت میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق یوں بھی پندرہ برس قبل ہی ملا تھا۔
پارلیمانی انتخابات کے لیے سنیچر کو ووٹ ڈالے گئے تھے اور کویت کے نئے حکمراں نواف الاحمد الصباح کے ماتحت یہ پہلے انتخابات تھے۔ گزشتہ ستمبر میں اپنے سوتیلے بڑے بھائی شیخ صباح الاحمد الصباح کی وفات کے بعد وہ ملک کے نئے امیر مقرر ہوئے تھے۔
کویت نے خلیجی ممالک میں سب سے پہلے سن 1963 میں انتخابی پارلیمان کا قیام کیا تھا۔ اس وقت سے پارلیمان کے انتخابات وقت پر ہوا کرتے ہیں تاہم ملک کا اقتدار پارلیمان کے بجائے حکمراں صباح خاندان کے ہاتھ میں ہی رہتا ہے اور کویت کا امیر ہی اپنی پسند کی انتظامیہ کا انتخاب کرتا ہے۔
ملک میں سیاسی جماعتوں پر بھی پابندی عائد ہے اور لوگ آزاد امیدوار یا پھر ذاتی حیثیت سے پارلیمان کے انتخاب میں حصہ لیتے ہیں۔ لیکن کئی آزاد گروپ متحدہ ایجنڈے کے ساتھ انتخابی میدان میں اترتے ہیں اور اس طرح سیاسی جماعت نہ ہونے کے باجود بھی غیر سرکاری سطح پر حزب اختلاف کا ایک دھڑا پایا جاتا ہے۔ یہ اپوزیشن اتحاد الگ نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کے بجائے آزاد اور ہم خیال ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔
سنیچر کو ہونے والے انتخابات میں کویت کے غیر سرکاری اپوزیشن کو ایک بڑی کامیابی ملی ہے۔ اس اتحاد نے اصلاحات کی بات کی اور بدعنوانی اور بڑے قرضوں کے خاتمے پر زور دیا تھا۔اس اتحاد نے پارلیمان کی تقریبا ًنصف نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ 50 رکنی قومی اسمبلی میں اس گروپ سے تعلق رکھنے والے یا اس سے وابستہ 24 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
اس بار کامیاب ہونے والے 30 امیدواروں کی عمریں 45 برس سے بھی کم ہیں جس نے نوجوانوں میں اصلاحات اور تبدیلی کی ایک امید اجاگر کی ہے۔ کویت میں خواتین سے متعلق سماجی و ثقافتی ادارے کی سربراہ للوا صالح ملّا کا کہنا ہے کہ انتخابات میں ایک طرف جہاں خواتین کی ناکامی بڑی مایوس کن ہے وہیں پارلیمان میں نوجوانوں کی اکثریت ایک حوصلہ بخش بات بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا، ”لوگوں نے بڑے مثبت انداز میں تبدیلی کے لیے ووٹ میں حصہ لیا اور بعض ان عناصر کو شکست دی جنہوں نے جمہوریت کی شبیہ کو مخدوش کیا اور رکن اسمبلی کی حیثیت سے اپنی طاقت کا بے جا استعمال کرتے تھے۔”