موجودہ حالات کے مطابق پوری دنیا کے مسلمان انتہائی مشکل دور سے گز رہے ہیں شام، عراق، افغانستان پورا عالم اسلام اس وقت خانہ جنگی کا شکار ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے مسلمان جو امن امان کے لحاظ سے ایک الگ پہچان رکھتے تھے آج اقوام عالم میں دہشت گرد اور انتہا پسند قوم بن کر ابھر رہے ہیں! اگر مسلمانوں کی تاریخ کی طرف ایک نظر دہرائی جائے تو روز روشن کی طرح ایک حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اسلام سے پہلے عرب ممالک میں جو کچھ ہوا کرتا تھا سبھی اس سے بخو بی واقف ہیں محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی تعلیمات کی بدولت وہ جاہل اور انسانیت سے نا واقف عرب کے لو گ جو اپنی معصو م بیٹیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے غریبوں، مجبوروں اور لاچاروں کا استحصال کیا جاتا تھا وہی عرب اس قدر تہذیب یافتہ بن کر ابھرے کہ ایک مثال قا ئم کر دی۔
وہ عرب جہاں ہر طرف بد امنی، بات بات پر لڑائی جھگڑے، خاندانی دشمنیاں نسلوں کو ختم کر دیتی تھیں پر امن کہلانے لگے۔ ایک طرف تو مسلمانوں کی یہ تاریخ اور یہ مقام دوسری طرف مو جودہ صورت حال نو حہ کناں ہے کہ کل کا معتبر اور امن کا علمبردار مسلمان کہاں کھو گیا؟ دوسری طرف امریکہ نے شام پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور بارک اوبامہ کانگریس اور یو رپی ممالک سے مسلسل رابطے میں ہے کہ شام پر حملے میں نہ صرف امریکہ کی حمایت کی جائے بلکہ پورا پورا ساتھ بھی دیا جائے، جبکہ روس اقوام متحدہ کی جانب سے اجازت نامے کا منتظر ہے اور امریکہ اقوام متحدہ کو کسی بھی خاطر میں نہ لاتے ہو ئے حملہ کر دینا چاہتا ہے جس پر روس امریکہ کے اس اقدام پر سخت رد عمل کا اظہا ر کر رہا ہے۔
Afghanistan War
روس نے امریکہ کو یہ عندیہ بھی دے دیا ہے کہ اگر شام پر حملے میں اقوام متحدہ کی منظوری شامل نہ ہوئی تو روس کی طرف سے شام کو میزائل دفاعی نظام فراہم کر دیا جائے گا، یعنی امریکہ مکمل طور پر شام پر حملہ کرنے پر تلا ہوا ہے مگر روس کی جانب سے رکاوٹیں پیش کی جا رہی ہیں کیونکہ امریکہ کے بحری بیڑے مشرقی بحیرہ روم پر پوری جنگی تیاری کے ساتھ پہنچ چکے ہیں روس کے علاوہ چین، بھارت، انڈونیشیا، برازیل، ارجنٹائن، جنوبی افریقہ اٹلی نے بھی امریکہ کی شام کے خلاف فوجی کا روائی کی مخالفت کر دی ہے۔! شاید شام پر حملہ تو کئی دنوں پہلے ہو چکا ہوتا اگر ان تمام ممالک کی جانب سے مخا لفت کا اظہار نہ کیا جا تا۔ مگر پھر بھی امریکہ اپنے فیصلے سے منحرف ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ امریکہ اپنی انا کی جنگ لڑتا ہے اب جو کہہ چکا اس کو پورے نہ کرے تو انا نہیں رہتی۔
اپنے سپر پاور ہونے کے نشے میں چور امریکہ کو یہی بات دیمک کی طرح کھائے جا رہی ہے کہ اگر حملہ نہ کیا گیا تو دنیا پر قائم رعب ختم ہو جائے گا، لیکن امریکہ یہ بھی جانتا ہے کہ افغانستان سے ابھی تک نجات نہیں ملی، جس کے لئے مذاکرات کے میز کا استعمال کیا گیا، اگر اتنے سال افغانستان میں جنگ لڑنے کے باوجود مذاکرات میں ہی بہتری نظر آئی تو پھر دوبارہ امریکہ وہی غلطی کیوں دہرانا چاہتا ہے، کیوں شام میں بھی جنگ کی بجائے مذاکرات کے میز کے استعمال پر اکتفا نہیں کیا جا رہا۔ امریکہ شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار بھی تو ادا کر سکتا ہے ہر مسئلے کا حل جنگ ہی تو نہیں ہے۔! مو جودہ دور کا شام مشرق وسطیٰ کا ایک بڑا اور تاریخی ملک 1946 ء میں فرانس کے قبضے سے آزاد ہوا تھا ایک محتاط اندازے کے مطا بق اس کی آبادی 2 کروڑ ہے، 22 فروری 1958 ء کو مصر اور شام نے اتحاد کیا اور ایک متحدہ ملک قائم ہوا، جس کا نام متحدہ عرب جمہوریہ تھا۔
مگر 28 ستمبر 1961 ء میں سامراجی قوتوں کی ایماء پر ایک فوجی بغاوت ہوئی اور یہ اتحاد ختم ہو گیا، اور شام ( الجمہوریة العربیة السوریہ) کے نام سے دوبارہ الگ ملک کی حثییت اختیار کر گیا، 8 مارچ 1963ء کو بعث پارٹی اقتدار پر براجمان ہوئی، اور اسی پارٹی کے حافظ الاسد ملک کے صدر بنے اور 10 جون 2000 ء کو ان کا انتقال ہو گیا اور ان کے بیٹے بشارالاسد نے صدارت سنبھالی۔ اور صدر بشار الاسد نے 16 جون 2006 کو ایران کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ بھی کر رکھا ہے جس کے تحت دونوں ممالک ہتھیاروں کا تبادلہ بھی کر سکتے ہیں گویا اگر شام پر حملہ کیا جاتا ہے تو ایران شام کی بھر پور حمایت میں میدان میں اترے گا ایران بھی ایٹمی ٹیکنالوجی رکھتا ہے، دوسری طرف اسرائیل امریکہ کی بھر پور حمایت کرہا ہے گویا تمام صیہونی طاقتیں مسلمانوں کے خلاف متحد ہونے کو ہیں مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم تمام مسلمان متحد نہیں ہوپا رہے، ہم ذات، پات، فرقہ پرستی اور طرح طرح کے تضادات میں الجھے ہوئے ہیں یا پھر اس طرح کی الجھنوں میں الجھا دینا ہی دشمن کا مقصد ہے؟ پورے عالم اسلام کو ان تمام معاملات میں سنجیدگی ظاہر کرنا ہو گی۔