تحریر : ساجد حبیب میمن میرا یہ ماننا ہے کہ صنعت وحرفت زراعت اور تجارت کا پہیہ مزدور کی قربانی کے بغیر ممکن نہیں ہے ،میں خود بھی ایک مزدور پیشہ انسان ہو جب دھوپ اور سخت سردی میں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دووقت کی روٹی کے لیے تگ ودو کرتا ہوں تب مجھے اسی مزدور کی افادیت اور اس کی حرمت کا احساس پیدا ہوتاہے اور اس کی محنت وعظمت کو سلام پیش کرنے کو دل کرتا ہے ۔مزدور ملک کے اقتصادی عمل میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، یہ اسی مزدور کی محنت ہے جو ہمیں زندگی کی اچھی خاصی سہولیات حاصل ہوجاتی ہیں اور انہیں کے دم سے آج یہ ملک اقتصادی راستے پر چل رہاہے ،اس لیے ضروری ہے کہ مزدور کی فلاح وبہبود پر خصوصی توجہ دی جائے کیونکہ ایک خوشحال اور صحت مند مزدور ہی اپنی کارکردگی کو بہتر کرسکتاہے جو ملکی پیداوار میں اضافہ کرتاہے !!۔مگر افسوس ہمارے یہاں مزدور کی جب ضروریات کی بات کی جاتی ہے تو یہ مسئلہ ہمیشہ سے ہی حکومتی کی عدم توجہ کا شکار رہاہے ان کے لیے تنخواہوں کا عمل اور ضروری سہولیات فراہم کرنا حکومت کے لیے ترجیحی بنیادوں سے ہٹ کر رہاہے۔
خصوصاً مزدور اور اس کا خاندان نجی زندگی میں صحت کی بہت سی سہولیات سے محروم ہوتاہے ،حکومت کی جانب سے لاپرواہی ایک روایتی مسئلہ ہے مگر ان کی جیب میں اس قدر رقم نہیں ہوتی کہ وہ اپنا اور اپنے بچوں کا علاج بہتر طریقے سے کرواسکیں ۔ اس سلسلے میں مجھے یاد پڑتا ہے کہ موجودہ نواز حکومت نے ایک ہیلتھ انشورنس پالیسی بھی چلائی تھیں،جس کا بنیادی مقصدغربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد خصوصاً مزدور طبقے کے لیے صحت کی مفت سہولیات دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔وفاقی حکومت کے ماتحت اس پروگرام پر عملدرآمد صوبوں نے کرنا تھاکہ وہ غریبوں کو ہیلتھ انشورنس کارڈ کے ذریعے علاج ومعالجہ کی سہولیات فراہم کرنے میں اپنااپنا کردار اداکریں ۔جب یہ کمیٹی بنائی گئی تھیں اس میں صوبوں اور وفاق کے نمائندگان شریک تھے جس پر اتفاق بھی کرلیا گیاتھا۔
مگر جہاں تک عملددرآمدکا معاملہ تھا اس میں وہی” ڈھاک کے تین پات” ۔یعنی اس پر آج تک ایک بھی مزدور یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس ہیلتھ اشورنس کمیٹی کے تحت اس کا یا اس کے خاندان کے کسی ایک فرد کا علاج ممکن ہوا ہو۔ یہ معاملہ کھٹائی میں چلا گیا مگر مزدور کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیاگیا افسوس غریب اور متوسط طبقے کے لوگ توکیا خاک مفت علاج کی سہولیات سے فیض اٹھا سکیں گے ان کے علاقوں میں تو روڑ راستے اور ہسپتالوں میں ادویات اور ڈاکٹروں کا ہونا ہی کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا ۔قائرین کرام میرے اس مضمون میں حکومت کو تنقید کرنے کی بجائے مزدور کی جانب توجہ مبذول کروانا ہے یکم مئی کے روز اس مزدور ڈے کو اخبارات میں خبریں لگوانے کے لیے استعمال کرلیا جائے گا۔کیونکہ اب حکومت مزدور طبقے کی صحت کو چھو ڑ کر اپنی صحت بنانے کے چکر میں لگ گئی ہے یعنی اور پالیسیز بنانے کے چکر میں لگ گئی ہے۔
Inflation
اس ملک میں جب ہم مہنگائی کا زکر کرتے ہیں اس میں بھی سب سے زیادہ یہ ہی مزدود طبقہ متاثر ہوتا ہے ورنہ حکومت کے پالیسی میکر وں کی نظرمیں آلو پانچ روپے کلو سے زیادہ میں نہیں بک سکتے مگر افسوس حقیقت میں ایک مزدور آدمی دوقت کی روٹی کے لیے ترس رہا ہوتا ہے حال ہی میں دال کی قیمت میں جو ہوشربا اضافہ ہوا ہے وہ بھی حکومتی منشا کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔یہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ اس کا براہ راست اسی مزدور پر طبقے پر پڑے گا جس کی محنت سے ان وزیروں کی ملیں اور فیکٹریاں چلتی ہیں ۔ دوستوں جہاں تک یوم مئی کا تعلق ہے اس کا آغاز 1886 شکاگو میں مزدور یونین کے ایک جلسے سے ہوا ہے ۔ جن کا مطالبہ ان کی مزدوری کا دورانیہ 8گھنٹے کرنے کا تھا۔اس جلسے میں حکومت نے پولیس کو اس مظاہرے کوروکنے کا حکم دیا تشدد کی لہر چلی تواس میں کئی مزدور اپنی جانوں سے چلے گئے جس کی وجہ سے یہ دن پوری دنیا میں چل نکلا حکومتوں نے اسے اپنی الیکشن کمپین کا حصہ بھی بنایا اور اسے اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال بھی کیا۔۔
قائرین کرام کچھ عرصہ میں رمضان المبارک شروع ہوجائے گاجس میں مہنگائی کا ایک نیا جھٹکا لگنے والا ہے ۔ ایک بات اور جب ہم مزدور اور اس کے اہلخانہ کی بیماریوں کا زکر کرتے ہیں تو اس میں ایک بڑی وجہ ان کے استعمال کے لیے گندہ پانی اور وہ ماحول ہے جس میں انہیں تنگ دستی کی وجہ سے زندگی گزارنا پڑتی ہے میں سمجھتا ہوں کہ مزدور ڈے کے حوالے سے بہت سے لوگ مزدور کے حقوق کے موضوع پر لکھیں گے مگر جو باریک بینی میں اس کالم میں لکھ رہاہوں اس پر شاید بہت کم لوگ لکھ پاتے ہیں یعنی جب شفاف پانی اور خراب آب و ہوا ان کو ملتی ہے تو ان میں میدے سمیت دیگر پیٹ کی بیماریوں کا سامنا رہتا ہے۔
ان بیماروں کو لیکر ایک مزدورمکمل طور پر اپنی مزدوری کے فرائض انجا م نہیں دے پاتا۔جس سے جہاں مزدور کی صحت کو نقصان پہنچتاہے وہاں متعلقہ انڈسٹری کی رفتار کو بھی نقصان پہنچتاہے یعنی اس طرح پاکستان کے اقتصادی عمل میں منفی اثرات جنم لیتے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت وقت اور ملک میں سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ مزدور طبقے کی ضروریات کی طرف زیادہ توجہ دیں ۔اس کے لیے ہر سیاسی جماعت کو چاہیے کہ وہ ایک لیبر کمیٹی بنائے جس میں پارٹی کے مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے لیڈران ہو جو ایک ایک تفصیلی رپورٹ تیارکریں کہ ان کے درمیان کام کرنے والے مزدروں کی حالت زار کیا ہے ، اور یہ کہ اس کو کس طرح بہتر کیا جاسکتاہے۔
Government
اس رپورٹ میں مزدور کی بہتر ی کی باتیں کرنے کے علاوہ مزدوروں کے حقوق کے لیے بنائی گئی نئی اسکیموں کے اخراجات کا اندازہ بھی لگایا جانا چاہیے تاکہ حکومت کو جب یہ رپورٹ پیش کی جائے تو اس کے لیے ان اسکیموں کو قبول کرنا آسان ہوحکومت اور سیاسی جماعتوں کے علاوہ رضاکار فلاحی تنظیموں کو بھی یہ ہی عمل دھرانا چاہیے تاکہ اس شعبے میں لوگوں کی دلچسپی بڑھے اور معاشرے میں مزدور کے احترام میں اضافہ ہو۔ایک رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک میں مزدورں کے لیے سہولیات پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ بہتر بتائی جاتی ہیں یعنی پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جو اسلامی قوانین پر عمل پیرا ہونے کے لیے بنایا گیا اور سب سے بڑھ کر ہمارے پیارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خود مزدوروں اور غلاموں سے محبت فرماتے تھے جن کا ایک فرمان یہ بھی کہ مزدود کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کردیا کرو۔
سبحان اللہ اس کے علاوہ بھی آپ کی زندگی میں مزدور کے شعبے پر بہت زیادہ توجہ دی گئی یہ سب کچھ احادیث مبارکہ اور عملی زندگی کے پہلو ؤں سے نظر آسکتا ہے ۔جس میں آپ کی جانب سے مزدوروں کے ساتھ ایک مدبرانہ اور شفیق رویہ اختیار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔قائرین کرام ہمارے یہاں حکومت اس وقت تک مزدورکی پروا نہیں کرتی جب تک اسے خود مزدور کی ضرورت نہ پڑجائے۔
یعنی اس کی حمایت درکار نہ ہوجائے یعنی یہ بات انتخابات سے لیکر دیگر معاملات تک چلی جاتی ہے افسوس کے اس ملک کو 75فیصد تک ٹیکسوں کا پیسہ قومی خزانے کو اس ملک کا مزدور طبقہ دیتا ہے اور پھر کس بے دردی سے اس خزانے کو لوٹا جاتا ہے لیکن ایک روپیہ بھی اس مزدور کی حالت زار کو ٹھیک کرنے کے لیے نہیں لگایا جاتا۔