تحریر : زاہد محمود یکم مئی کو پاکستان بھر کے مزدور عام چھٹی کرتے ہیں۔ یہاں کے محنت کشوں کی اکثریت اس انقلابی حقیقت سے ناآشنا ہے کہ اس دن یورپ و امریکا کے مزدوروں نے اپنے حقوق لینے کے لئے نظام سے بغاوت کی۔ یہ وہ دور تھا، جب مزدور ہفتے کے سات دنوں میں بارہ گھنٹے کام کرتے تھے، پھر بھی اُجرت وقت پر نہ ملتی اور بیماری میں چھٹیاں کاٹ لی جاتیں۔ محنت کشوں کے بچے نبیادی سہولیات سے محروم،جبکہ اُمراء کی اولادوں کوسبھی عیشِ حیات کی فراوانی میسر تھی۔ انیسویں صدی کی تیسری دہائی تھی۔ فرانس کے مزدور پیرس شہر کی سڑکوں پر پہلی بار نکلے۔ کئی دن فوج کے ساتھ آنکھ مچولی کے بعد، ریاست نے طاقت کے بل بوتے پر اس بغاوت کو کچل دیا۔
کچھ عرصے میں ہی یہ تحریک انقلابی بن گئی،جو مزدوروں کے خون سے رنگیںہونے لگی۔ فرانس سے شروع ہونے والی اس انقلابی تحریک کی آگ کے شعلے آسٹریا،ہنگری،ہالینڈ،پولینڈ، اٹلی، جرمنی و امریکا سے ہوتے ہوئے انگلستان کے ساحلوں سے ٹکرا اٹھے،جس کی لپیٹ سے روس تک محفوظ نہ رہا۔ اس بغاوت کے پیچھے محنت کشوں میں پھیلی صدیوں کی محرومیاں تھیں،جس میں طبقاتی امتیاز کا وسیع خلاء موجود تھا۔ مزدوروں کو جاگیر دارانہ نظام کی طرح غلام ہی سمجھا جاتا تھا، فرق یہ تھا اب انہیں خریدنے کی بجائے ان سے کام کرنے کا معاوضہ طے ہوتاتھا۔ اسی دور میں ہی کمیونزم اور سوشلزم کے بڑے بڑے مبلغ پیدا ہوئے، جو اس تحریک میں شدت لانے کے لئے مزدو طبقے کے علاوہ ہر سطح پر عوام میں شعور پھیلانے لگے۔ محنت کشوں کی اس تحریک نے ان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے ایوانوں کے در و دیوار ہلا دیے۔
سات دہائیوں تک چلنے والی اس تحریک میں ہزاروں مزدور مختلف ہنگاموں اور فسادات کی ذد میں آکر قربان ہوئے،ان لازوال قربانیوں کے ثمرات سے محنت کش اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوئے، ان کے حقوق تسلیم کر لئے گئے۔ مزدوروں کوبنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے نئی قانون سازی کی گئی۔ آٹھ گھنٹے کام کرنے کا وقت مقرر ہوا، اوور ٹائم کو دوگنا کر دیا گیا۔ بنیادی صحت ،سالانہ بونس ،انشورنس، ٹرانسپورٹ کی سہولیات عمل میں لائی گئیں۔ محنت کشوں کے انقلاب کے بعد ایک اور انقلاب پیدا ہوا، یہ صنعتی ترقی کا ذریعہ بنا۔ دن رات تجربات اور ایجادات ہونے لگیں۔ جدید مشینوں نے فیکٹریوں کی پیداوار کو سو گُنا تک بڑھا دیا۔ ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیںوہاں ترقی کا راز مزدوروں کے انقلاب میں چھپا ملے گا۔ بد قسمتی سے اس وقت پاکستان میں مزدوروں کی حالت زار صدیوں پہلے معاشی بدحالی کے شکار محنت کشوں سے بھی اَبتر نظر آتی ہے۔
آپ یہاں کے بڑے صنعتی شہروں کا مشاہدہ کر لیں،ٹیکسٹائل ملز گھوم آئیں، گارمنٹس،سپورٹس سے لے کر سرجیکل انڈسٹری کا چکر لگا لیں،لوہا بنانے والے بڑے کارخانے ہوں یا آپ اینٹیں بنانے الے بھٹے کھنگال لیں، چند ایک کے سوا کوئی بھی مزدوروں کے بنیادی حقوق دینے پر رضامند نہیں۔ کتنی فیکٹریاں ہیں جو مزدوروں کو صحت، انشورنس، ٹرانسپورٹ یا بونس فراہم کر رہی ہیں؟ اس سے بھی بڑی بد قسمتی ہے وہ یہ کہ آج پاکستان میں محنت کشوں کے حقوق کی آواز اٹھانے والا کوئی موجود نہیںہے۔ یہاں کوئی ایسی یونین نہیںجو مزدوروں کے مقدمے کی وکالت کرسکے،یہاں کا میڈیا،یہاں کے مدبرین و اہلِ قلم، لفظوں کے ہیر پھیر میں چکرا دینے والے کبھی مزدوروں کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے نظر آئے ہوں؟ ہر اینٹ اکھاڑنے پر برآمد ہونے والی این جی اوز ہوں یا کٹھ پتلی مزدور یونینز، سب کھا پی کر ڈکار مارتے ہیں اور پتلی گلی نکل لیتے ہیں،مگر مزدور آج بھی وہیں ہیں جہاں ان کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ کبھی کوئی بازگشت کانوں تک نہ پہنچ پائی کہ مزدوروں کو بنیادی حقوق دلائے جائیں۔ یہاں پر بڑی فیکٹریوں میں آگ لگنے سے مزدور زندہ جل جاتے ہیں، فیکٹریاں زمین بوس ہو جاتی ہیں، مزدوروں کو ایڈوانس رقم دے کر بیانِ حلفی لکھوا کر بد ستورغلام بنایا جاتا ہے۔
خاص طور پر اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کو قرض کے طور پر رقم دینا ،پھر اس قرض کی ادائیگی اس کی آنے والی نسلیںادا کرتی ہیں۔ ایسے واقعات عام مشاہدہ کرنے کو ملتے ہیں۔ مگر لیبر انسپکٹر کا چالان اس کی اپنی جیب میں پڑا رہ جاتاہے جبکہ کچھ لے دے کر معاملہ نمٹالیا جاتا ہے۔ یہاں لیبر کے لئے قوانین موجود ہیں، یہاں لیبر آفیسر بھی موجود ہے، پھر بھی چائلڈ لیبر کام کر رہی ہے۔ یورپی ممالک کے مزدوروں نے مسلسل جدوجہد سے لازوال قربانیاں دے کر استحصالی نظام کے خلاف لڑی جانے والی اپنی جنگ خود جیتی اورانہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے یکم مئی کا دن ان کے نام کر دیا گیا۔ پاکستانی مزدور جب تک خود اپنے حقوق لینے کے لئے اس غلامانہ نظام کے خلاف جدوجہد نہیں کریں گے آزاد نہیں ہو سکیں گے، بلکہ اس نظام کی دلدل میں دھنستے جائیں گے۔