مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر اگرچہ ملک میں سرکاری طور پر عام تعطیل ہوتی ہے اور محنت کشوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے خصوصی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں اس دن کی حقیقت سے بے خبر معاشی مشکلات کا شکار محنت کش طبقہ یکم مئی کو بھی روزگار کا متلاشی نظر آتا ہے۔ امریکہ کے شہر شکاگو میں 1886ء میں مزدوروں نے اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ کرکے دنیا کی توجہ اپنے مسائل کی جانب مبذول کروائی تھی اور اس مناسبت سے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہر سال پاکستان میں بھی یکم مئی محنت کشوں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ محنت کشوں کا کہنا ہے کہ یکم مئی کی اہمیت اپنی جگہ لیکن روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے کو اتنی فرصت کہاں کہ وہ ایسی تقاریب میں شرکت کر سکیں جہاں ان کے بارے میں بات کی جاتی ہے۔
وفاقی دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس دن سرکاری چھٹی کا اعلان تو کر رکھا ہے لیکن صرف وہی لوگ اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزار سکتے ہیں جن کی جیب میں پیسے ہوتے ہیں۔پاکستان میں مزدوروں کی نمائندہ تنظیمیں طویل عرصے سے محنت کشوں کا معاوضہ بڑھانے کا مطالبہ کرتی آئی ہیں اور مختلف ادوار میں اس ضمن میں پیش رفت بھی ہوئی ہے لیکن مزدوروں کے بقول مہنگائی میں اضافے کے مقابلے میں یہ اقدامات نا کافی ہیں۔
2012 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں وزارت محنت و افرادی قوت کے زیراہتمام تقریب سے خطاب میں وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے مزدوروں کے بچوں کے لیے نئے سکول اور رہائشی کالونیاں بنانے کا اعلان کیا۔”کم از کم ماہانہ تنخواہ جو اس وقت سات ہزار (روپے ) ہے اس کو آٹھ ہزار روپے کرنے کا اعلان کرتا ہوں اور پینشن میں 20 فیصد اضافے اور ڈیتھ گرانٹ کو تین لاکھ (روپے ) سے بڑھا کر پانچ لاکھ (روپے ) کا اعلان کرتا ہوں۔”ادھر پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آبادی کے لحاظ سے ملک کے سے بڑے صوبے میں مزدوروں کی کم از کم ماہانہ تنخواہ نو ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا ہے۔
براعظم ایشیا میں یکم مئی کی مناسبت سے بڑے اجتماعات تھائی لینڈ، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا کے دارالحکومتوں میں ہوئے جہاں مزدور انجمنوں کے زیر اہتمام ہونے والی ریلیوں میں لاکھوں محنت کشوں نے شرکت کی۔یورپ میں ہونے والے بیشتر مظاہروں کے شرکا کی تنقید کا ہدف مختلف یورپی حکومتوں کے وہ بچت اقدامات بنے رہے جو انہوں نے حالیہ کچھ عرصے میں قرضوں کے بحران کے باعث کیے ہیں۔
Labor Protest
یادر ہے کہ یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کویاد کرنا ہے۔یوم مئی کا آغاز 1886ء میں محنت کشوں کی طرف سے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کے مطالبے سے ہوا۔اس دن امریکہ کے محنت کشوں نے مکمل ہڑتال کی ۔تین مئی کو اس سلسلے میں شکاگو میں منعقد مزدوروں کے احتجاجی جلسے پر حملہ ہوا جس میں چار مزدور شہید ہوئے ۔اس بر بریت کے خلاف محنت کش احتجاجی مظاہرے کے لئے( Hey market square)میں جمع ہوئے پولیس نے مظاہرہ روکنے کے لئے محنت کشوں پر تشدد کیا اسی دوران بم دھماکے میں ایک پولیس افسر ہلاک ہوا تو پولیس نے مظاہرین پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں بے شمار مزدور شہید ہوئے اور درجنوں کی تعداد میں زخمی ،اس موقعے پر سرمایہ داروں نے مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر کے پھانسیاں دی حالانکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ اس واقعے میں ملوث ہیں ۔انہوں نے مزدور تحریک کے لئے شہادت دے کر سرمایہ دارانہ نظام کا انصاف اور بر بریت واضح کر دی۔
ان شہید ہونے والے رہنماؤں نے کہا ۔”تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کر سکتے ہو لیکن ہماری آواز نہیں دباسکتے ”اس جدوجہد کے نتیجے میں دنیا بھر میں محنت کشوں نے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار حاصل کئے ۔اس سال دنیا بھر کے مزدور یوم مئی ایسے حالات میں منا رہے ہیں جب ساری دنیا میں سرمایہ داری کا بحران شدت اختیار کر رہا ہے۔حکمران طبقہ چاہتا ہے کہ اس بحران کی قیمت محنت کش عوام ادا کریں اور اس کا منافع برقرار رہے ۔لیکن محنت کش عوام اس نعرے کے تحت کہ” ہم تمھارے بحران کی قیمت ادا نہیں کریں گے ” فرانس ، یونان ،برطانیہ اور امریکہ میں حکمران طبقہ کے حملوں کے خلاف جدوجہد میں آرہے ہیں ،،دوسری طرف تیونس، مصر، لیبیا، شام، بحرین، یمن، سعودی عرب، اردن، اومان میں جنم لینے والا انقلاب پوری دنیا میں حکمران طبقہ کو خوف میں مبتلا کر رہے ہیں۔
پاکستان میںKESC ،پی آئی اے ، پورٹ ورکرز، ینگ ڈاکٹرز، ہیلتھ ورکرز،ریلوے، واپڈا، ،یو نیورسٹیز، کالجز اور اسکولزکے اساتذہ ، کی تحریکیں موجودہ نظام کی مہنگائی ،برطرفیوں اور نجکاری کے خلاف ہیں۔حکمران طبقہ پھر بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سرمایہ داری کا کوئی متبادل نہیں۔ محنت کشوں کے ساتھ اسٹوڈنٹ، نوجوان، ہاری اور کسان یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ اس نظام میں ان کوئی مستقبل ہے ۔ محنت کش عوام تبدیلی چاہتے ہیں اور یہ مزدور طبقے کی اپنی جدوجہد سے ہی ممکن ہے جس کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ سماج کو تبدیل کر سکے کیونکہ سماج کی ترقی اور پیداوار کا انحصار محنت کش طبقے کی محنت پر منحصر ہے۔
سوشلسٹ انقلاب کے لئے تمام مادی حالات تیا ر ہیں لیکن فیصلہ کن کردار رکھنے والا عنصر انقلابی پارٹی موجود نہیں ۔جس کو ٹرا ٹسکی نے قیادت کا بحران کہا تھا۔آج دنیا جس شدت سے اس بحران کا شکار ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ یہ صورتحال تقاضہ کرتی ہے محنت کش طبقے کی عالمی سوشلسٹ انقلاب کی پارٹی تعمیر کی جائے ۔تاکہ آزاد منڈی کے نظام کو شکست دے کر محنت کش عوام کے جمہوری کنٹرول پر مشتمل منصوبہ بندی معیشت قائم کی جائے۔ جہاں اشیاء منافع کے بجائے انسانی ضرورت کے لئے بنائی جا سکیں۔