تحریر : زاہد خاں کاکڑ صبح صبح جب میں چوک سے گزرتا تو سڑک کے دونوں اطراف مزدور اپنی مزدوری کے انتظار میں رہتے ۔ میں ان کو دیکھتا اور کچھ سوچے بغیر ہی یہاں سے گزر جاتا۔ لیکن کبھی کبھی جب میں 11 بجے واپس آتا اورمیرا چکر بھی چوک کی طرف لگتا تو وہاں کچھ مزدور ابھی تک موجود ہوتے۔ پھر یہ سوچتا شاید ان کو ابھی تک کوئی کام نہیں ملا، یہ سوچتے سوچتے اپنا راستہ لیتا اور چلا جاتا۔ آج جب میں کلاس میں گیا تو بچوں نے پوچھا” سر جی کل چھٹی ہے ” میں نے پوچھا کیوں چھٹی ہے تو کہنے لگے ”مزدور کا عالمی دن ہے” میں نے ان سے کچھ سوال کیے تو کسی بچے نے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔ مجھے جتنا معلوم تھا وہ میں نے ان کو بتا دیا لیکن گھر پہنچ کر سوچا اس پر کچھ لکھتے ہیں لیکن لکھنے سے پہلے کچھ تفصیلات کا پتہ کر لیں۔ جو کوشش کی اس کا نتیجہ یہ ہے۔
یوم مئی، مزدور کا عالمی دن یا لیبر ڈے ، ہم کیوں مناتے ہیں۔ہوتا یہ تھا کہ مزدور کی زندگی ایک گدھے کے برابر تھی۔ ایک جانور کی طرح مزدور سے کام لیا جاتا تھا۔ دن میں 16ـ16 گھنٹے کام لیا جاتا۔ تنخواہ بھی کچھ خاص نہیں تھی ۔ اوورٹائم کا تصور ہی نہیں تھا۔ ڈیوٹی کے دوران اگر کوئی مزدور زخمی ہو جاتا یا مر جاتا تو اس کے تمام اخراجات خود مزدور کے ذمہ تھے فیکٹری یا مل کی طرف سے ایسا کوئی قانون نہیں تھا کہ مزدور کو زخمی ہونے کی صورت میں اس کا علاج کروایا جاتا۔ مزدور کی ملازمت کا فیصلہ مالک کی صوابدیدی پر ہوتا ۔ وہ جس کو چاہتا ملازمت پر رکھتا اور جس کو چاہتا ملازمت سے ہٹا دیتا۔ ہفتے میں سات دن کام کرنا پڑتا، چھٹی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے امریکہ اور یورپ میں مزدوروں نے مختلف تحریکیں چلائیں 1884ء میں فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈرز اینڈ لیبریونینز نے اپنا ایک اجلاس منعقد کیا جس میں انہوں نے ایک قرارداد پیش کی۔ قرارداد میں کچھ مطالبے رکھے گے جن میں سب سے اہم مطالبہ مزدوروں کے اوقات کار کو 16 گھنٹوں سے کم کر کے 8 گھنٹے کیا جائے ۔ مزدوروں کا کہنا تھا 8 گھنٹے کام کے لیے ، 8گھنٹے آرام کے لیے اور 8 گھنٹے ہماری مرضی کے ۔ یہ مطالبہ یکم مئی سے لاگو کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔ لیکن اس مطالبہ کو تمام قانونی راستوں سے منوانے کی کوشش ناکام ہونے کی صورت میں یکم مئی کو ہی ہڑتال کا اعلان کیا گیا اور جب تک مطالبات نا مانے جائیں یہ تحریک جاری رہے گی۔ 16ـ16 گھنٹے کام کرنے والے مزدوروں میں 8 گھنٹے کام کا نعرہ بہت مقبول ہوا۔ اسی وجہ سے اپریل 1886 ء تک 2 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ مزدور اس ہڑتال میں شامل ہونے کے لیے تیار ہو گے۔
اس تحریک کا آغاز امریکہ کہ شہر ”شگاگو” سے ہوا۔ ہڑتال سے نپٹنے کے لیے جدید اسلحہ سے لیس پولیس کی تعداد شہر میں بڑھا دی گئی۔ یہ اسلحہ اور دیگر سامان پولیس کو مقامی سرمایہ داروں نے مہیا کیا تھا۔تاریخ کا آغاز یکم مئی سے شروع ہوگیا۔ پہلے روز ہڑتال بہت کامیاب رہی دوسرے دن یعنی 2 مئی کو بھی ہڑتال بہت کامیاب اور پْر امن رہی۔ لیکن تیسرے دن ایک فیکٹری کے اندر پولیس نے پر امن اور نہتے مزدوروں پر فائرنگ کر دی جس کی وجہ سے چار مزدور حلاک اور بہت زخمی ہو گے۔
اس واقعہ کے خلاف تحریک کے منتظمین نے اگلے ہی روز 4 مئی کو ایک بڑے احتجا جی جلسے کا اعلان کیا۔ اگلے روز جلسہ پْر امن جاری تھا لیکن آخری مقرر کے خطاب کے دوران پولیس نے اچانک فائرنگ شروع کرکے بہت سے مزدور ہلاک اور زخمی کر دے ۔ پولیس نے یہ الزام لگایا کہ مظاہرین میں سے ان پر گرینیڈ سے حملہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ایک پولیس ہلاک اور کئی زخمی ہوگے ہیں۔ اس حملے کو بہانہ بناکر پولیس نے گھر گھر چھاپے مار ے اور بائیں بازو اور مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر لیا’ ایک جعلی مقدمے میں آ ٹھ مز دور رہنماؤں کو سزا ئے موت دے دی گئی۔
البرٹ پار سن’ آ گسٹ سپائز ‘ایڈولف فشر اور جارج اینجل کو 11 نومبر 1887ء کو پھانسی دے دی گئی۔لوئیس لنگ نے جیل میں خود کشی کر لی اور باقی تینوں کو 1893ء میں معافی دیکر رہا کر دیا گیا۔ مئی کی اس مزد ور تحریک نے آ نے والے دنوں میں طبقاتی جدوجہد کے متعلق شعور میں انتہائی اضافہ کیا’ایک نوجوان لڑکی ایما گولڈ نے کہا ”کہ مئی1886ء کے واقعات کے بعد میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے سیاسی شعور کی پیدائش اس واقعے کے بعد ہو ئی ہے ” ۔ البرٹ پا رسن کی بیوہ لوسی پارسن نے کہا” دنیا کے غریبوں کو چاہیے کہ اپنی نفرت کو ان طبقوں کی طرف موڑ دیں جو انکی غربت کے ذمہ دار ہیں یعنی سر ما یہ دار طبقہ”۔ جب مزدوروں پر فائر نگ ہو رہی تھی تو ایک مزدور نے اپناسفید جھنڈاایک زخمی مزدور کے خون میں سرخ کرکے ہوا میں لہرا دیا ‘اسکے بعد مزدور تحریک کا جھنڈاہمیشہ سرخ رہا۔
1889 ء میں ریمنڈ لیوین کی تجویز پر یکم مئی 1890ء کو یوم مئی کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔ اس دن کی تقریبات بہت کامیاب رہیں۔ اسکے بعد یہ دن ” عالمی یوم مزدور” کے طور پر منایا جانے لگا سوائے امریکہ’ کینیڈا اورجنوبی افریقہ کے ۔ جنوبی افریقہ میں غالبا ًنسل پرست حکومت کے خاتمے کے بعد یوم مئی وہاں بھی منایا جانے لگا ۔ مزدور اور دیگر استحصال زدہ طبقات کی حکومت لینن کی سربراہی میں اکتوبر انقلاب کے بعد سوویت یونین میں قائم ہوئی۔ اسکے بعد مزدور طبقے کی عالمی تحریک بڑی تیزی سے پھیلی اور چالیس پچاس سالوں میں دنیا کی تقریباً نصف آبادی پر مزدور طبقے کا انقلابی سرخ پرچم لہرانے لگا۔
اس کوشش کے باعث فیکٹری اور میل کے ملازمین کو تو کسی حد تک تخفظات مل گئے لیکن ایک عام مزدور جو صبح چوک پر اپنی مزدوری کا انتظار کرتا ہے ۔ جو صبح مزدوری کرتا ہے اور رات کو اس کا چولہا جلتا ہے۔ کسی بھی سرکاری یا پرائیوٹ چھٹی کے ساتھ ہی اس کے گھر میں فاقے کی آمد ہوتی ہے ۔ ایسے مزدوروں کی زندگی میں یکم مئی کی کیا اہمیت ہو گی۔