حضرت عمر نے فرمایا ”امیر المومنین صرف اُس وقت گیہوں کی روٹی کھا سکتا ہے جب اُسے یقین ہو جائے کہ رعایا میں سے ہر ایک کو گیہوں کی روٹی میسر ہے لیکن ہمارے ”مہربانوں” کو اتنی فرصت کہاں کہ وہ کسی مفلس کی ”کُٹیا” میں جھانک کر دیکھ سکیں۔ اُن کے نزدیک تو یہ سب ”کتابی” باتیں ہیں جن پر اِس” دَورِ منور” میں عمل ممکن نہیں۔ اُدھر ”رعایا” بھی با کمال کہ کھیتی بے بَرگ و ثمر، کم نصیبی کی سیاہ رات ختم ہونے کا کوئی امکاں نہ آمدِ صبح کی گواہی دینے والا کوئی مہرباں، مزدور اور کسان کے ماتھے کے پسینے سے زور آوروں کی تجوریاں لبا لَب لیکن مجبوروں، مقہوروں کے چولہے خاموش، پھر بھی سب کچھ نصیبہ جان کر قبول، کوئی شکوہ نہ شکایت، زبانیں زنگ آلود اور لبوں پہ مہرِ خاموشی۔ شہروں میں تھوڑی بہت ہل چل لیکن دیہاتوں میں بسنے والے 70 فیصد کو فہم نہ ادراک۔ اقبال کا درسِ خودی تو یہ تھا کہ
جِس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
لیکن اِس قوم کے خمیر میں تو انقلاب کے جرثومے سرے سے موجود ہی نہیں البتہ اتنا ضرور کہ پاؤں فگار قوم کی نگاہوں کواب کوئی جچتا ہی نہیں ۔شاید اسی لیے انتخابات کے ہنگام غالب اکثریت گھروں میں بیٹھی چھٹی منا رہی ہوتی ہے۔آقا صلی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان تو یہ ہے ”تم میں سے ہر ایک راعی (چرواہا) ہے جس سے روزِ قیامت اُس کی بھیڑوں کا حساب لیا جائے گا” لیکن ہمارے حکمرانوں کوتو اتنا بھی پتہ نہیں ہوتا کہ
فرشتوں نے جسے سجدہ کیا تھا وہ کل فُٹ پاتھ پہ مُردہ پڑا تھا
بائرن نے کہا ”زندگی اُس پنڈولم کی مانند ہے جو آنسوؤں اور قہقہوں کے درمیان جھولتا رہتا ہے ”۔لیکن ہمارے آنگن کی کھیتیوں میں تو صرف آنسوؤں کی فصل اُگتی ہے اور ذہن کے اُفق پر اگر کوئی خیال آتا بھی ہے تو سسکیوں میں ڈوبا ہوا ۔اب تو ہم بارود کی بُو سے اتنے مانوس ہو چکے کہ اگر کوئی دن خیریت سے گزر جائے تو اُداس ہو جاتے ہیں ۔بائرن کے ”قہقہوں” کی تلاش میں اگر کبھی کسی نیوز چینل کا مزاحیہ پروگرام دیکھنے بیٹھ بھی جائیں تو طبیعت مزیدبَد مزہ ہو جاتی ہے اور یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے ہم بھانڈوں کے ”محلے” میں آ گئے ہوں ۔امام غزالی نے کہا ”تمسخر با لعموم قطع دوستی ، دل شکنی اور دشمنی کا باعث بنتا ہے لیکن ہمارے نیوز چینلز پر تو پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں، تمسخر اُڑایا جاتا ہے ، جملے کَسے جاتے ہیں اور جگت بازی ، ہزل گوئی کو فن کی معراج سمجھا جاتا ہے۔ سچ کہا بَر ٹر نڈرسل نے ”یہ وہ دَور ہے جس میں انسانیت کا خطرناک ترین دشمن خود انسان ہے۔
Mian Brothers
قوم نے یہ جان کر میاں برادران سے بہت سی توقعات وابستہ کر لیں کہ اُمید کی کچھ کرنیں اُنہی کی منڈیروں پر چمکتی دکھائی دیتی تھیں لیکن ایک سال ہونے کو آیا ، بدلا کچھ بھی نہیں سوائے چہروں کے۔قوم کو جن پہ تکیہ تھا وہی عالمِ بَد حواسی میں لیکن قصور اُن کا بھی نہیں کہ عنانِ حکومت سنبھالنے سے پہلے اُنہیں ادراک ہی نہیں تھا کہ اُنہیں وراثت میں اِک اُجڑا دیار ملے گا۔اُن کی کاوشوں سے شاید قوم کا کچھ بھلا ہو بھی جاتا لیکن افواہیں پھیلانے ، ٹانگیں کھینچنے اور طنز کے تیر برسانے والے ڈھیروں ڈھیر ۔سیاست دان سڑکوں پہ آنے اور دانشور چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھانے پر تیار ۔”خواجگان” نے پرویز مشرف کے خلاف چند جملے کیا بولے گویا بھڑوں کے چھتّے میں ہاتھ ڈال دیا ۔یار لوگوں نے اپنی اپنی ڈفلیاں اُٹھائیں اور یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ میاں نواز شریف صاحب نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ۔ اُدھر جنرل راحیل شریف کے اِس جملے نے بَد خواہوں کی آنکھوں کی چمک کئی گنا بڑھا دی کہ ”فوج اپنے وقار کا ہر قیمت پر تحفظ کرے گی ”۔سوال مگر یہ ہے کہ اِس جملے میں بغاوت کی بُو کہا ں سے آتی ہے ؟۔اگرجنرل صاحب یہ نہ کہتے تو پھر کیا یہ کہتے کہ فوج اپنے وقار کے تحفظ سے قاصر ہے ؟۔کیا یہ ایک عام سا جملہ نہیں جسے ہم ”عامیوں” کی زبان سے بھی دِن میں کئی کئی بار سُنتے ہیں ؟۔ لیکن یہاں تو مسلٔہ یہ آن پڑا کہ اپنی دانشوری کا رعب کیسے جھاڑا جائے ۔پھر وزیرِ اعظم صاحب زخمی حامد میر کی عیادت کے لیے چلے گئے تو طرح طرح کی مو شگافیاں ہونے لگیں ۔لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کی گزشتہ چھ ماہ میں جتنی ملاقاتیں ہوئی ہیں اتنی تو شاید گزشتہ چھیاسٹھ برسوں میں بھی سربراہانِ مملکت کی آرمی چیفس سے نہیں ہوئی ہونگی۔اگر سیاسی اور عسکری قیادت کے ما بین اتنا ہی تناؤ ہے تو پھر یہ روز روز کی ملاقاتیں چہ معنی دارد ؟۔در اصل ہمارا المیہ یہ کہ ”دَورِ مشرف ” میں بے شمار نیوز چینلز آن ایئر ہوئے جن کی بدولت صحافیوں کی کایا کلپ ہو گئی۔
دولت و شہرت گھر کی باندی اور طاقت دَر کی لونڈی ٹھہری ۔داخلہ اور خارجہ پالیسیاں نیوز چینلز پر ترتیب پانے لگیں، فیصلے عدالتوں کی بجائے نیوز چینلز پر ہونے لگے اور بقول نذیر ناجی ”چھاتہ بردار” اینکروں کی فوج ظفر موج نے سب کچھ اُلٹ پلٹ کرکے رکھ دیا ۔ڈرائیڈن کہتا ہے ”نقاد میں نفرت کا جذبہ شدید ہوتا ہے اور وہ محاسن سے زیادہ معائب کی تلاش میں سر گرداں رہتا ہے ”۔ ہمارے ہاں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے لیکن اِس فرق کے ساتھ کہ ہر کسی کا اپنا اپنا قبلہ اور اپنا اپنا کعبہ۔اپنوں کی مدح سرائی میںہمارا کوئی ثانی نہ غیروں کو طنز و تعریض کے نشتروں سے گھائل کرنے میں انتہائی معقول قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ نے محترم عمران خاں صاحب سے کہا ہے کہ ملکی حالات ہر گز اجازت نہیں دیتے کہ کسی قسم کی تحریک چلائی جائے اِس لیے خاں صاحب حکومت مخالف تحریک چلانے میں جلد بازی نہ کریں ۔ اُنہوں نے فرمایا کہ ”وقت کا تقاضہ ہے کہ میڈیا ہو یا عسکری قیادت ، سیاست دان یا حکمران ، اپوزیشن یا حکومت ، سب کو مل کر بیٹھنا چاہیے لیکن ہمیں یقین ہے کہ عمران خاں صاحب گیارہ مئی کو ضرور باہر نکلیں گے کیونکہ جس کا صلاح کار ”لال حویلی” والا ہو اُس سے بھلا اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟۔
ہمیں محترم خاں صاحب کی حب الوطنی پر تو کوئی شک نہیں لیکن جس طرح سے وہ کچھ لوگوں کی باتوں میں آ کر اپنی ”ضد” پال رہے ہیں اُسے حب الوطنی ہر گز نہیں کہا جا سکتا ۔میاں برادران سمیت اکابرینِ نواز لیگ میں ہزار خامیاں ہونگی اور ہیں لیکن یہ دھرتی جن اندرونی و بیرونی خطرات میں گھری ہوئی ہے اُن کا تقاضہ تو یہی ہے کہ پہلے ملک بچا لیں پھر سیاست بھی ہوتی رہے گی لیکن خاں صاحب جن عقیل و فہیم لوگوں میں گھِرے ہوئے ہیں ، وہ اُنہیں ہر گز ایسا نہیں کرنے دیں گے۔اُدھر انتہائے نرگسیت کے شکار کینیڈین مولانا صاحب بھی ایک دفعہ پھر کمر کَس کر میدان میں اترنے والے ہیں۔
مولانا صاحب جب پہلے تشریف لائے تو اُنہوں نے کاسہ لیسی کرتے ہوئے عسکری قیادت اور اعلیٰ عدلیہ کو جھانسہ دینے کی کوشش کی لیکن جب دونوں نے ہی گھاس نہ ڈالی اور ایم کیو ایم نے بھی بیچ منجدھار چھوڑ دیا تو مولانا صاحب ”بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے” کی عملی تصویر بنے کینیڈا سدھار گئے۔اب وہ محترم عمران خاں کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کی تگ و دَو میں ہیں جس میںاُنہیں فائدہ ہی فائدہ نظر آ رہا ہے۔اگر تحریک کامیاب ہو گئی تو مولانا کی تشنہ آرزوئوں کی تکمیل ہوجائے گی اور ناکامی کی صورت میں نو مولود تحریکِ انصاف تو یقیناََیہ جھٹکا سہہ نہیں پائے گی البتہ مولانا کچھ کھوئے بنا پھر سے ”اپنے دیس ”سدھاریں گے۔