پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی مزدوروں سے اظہار یکجہتی اور ان کی خدمات کے اعتراف میں یکم مئی کو ”مزدور ڈے”کے طور پر منایا جاتا ہے ، ہمارے سیاسی اور غیر سیاسی ”وڈیرے”اس دن سے باخوبی آشنا ہیں بھلے ہمارا مزدور طبقہ اس تاریخی دن پر بھی اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے سخت گرمی کی چلچلاتی دھوپ میں روزگار کی تلاش اور اپنے بچوں کے سہانے خوابوں کو پورا کرنے کی آس لئے مارا مارا پھر رہاہوتا ہے یعنی اس دن ”مزدور” سارے کام پر ہوتے ہیں اور ”افسر”سارے چھٹی پر ۔۔۔ان سب افسران میں سارے تو خیر نہیں کچھ اس دن بھی گھر نکلتے ہیں مگر ٹھنڈے ترین کمروں میں صرف ایک آدھ گھنٹا بیٹھنے کیلئے اور اس دن کو منانے کیلئے، اس دن کی مناسبت سے کچھ تقرریں سنی اور کیں اور گھر باقی معاملات وہیں کے وہیں ، مزدوروں کے حقوق کیلئے فلک شگاف نعرے ، من گھڑت بیان بازی، بے تُکے وعدے ۔۔۔ہم مزدوروں کیلئے یہ کردیں گے تو وہ کردیں گے۔
آنیوالے بجٹ میں بہت بڑی خوشخبری رکھی گئی ہے بھلا کون یقین کرے ایسی چکنی باتوں پر پھر مزدوروں کو کیا پتہ کہ آج ان کے حقوق کیلئے پوری دنیا میں ایک ایسادن منایا جارہاہے ، ان تو بس اتنا علم ہے کہ وہ چاہے بیماری میں ہوں یا پھر کسی اور ”پرابلم”میں ، وہ تو روزانہ کی بنیاد پر کہیں ”دیہاڑی”لگے گی اور وہ کچھ کماکر لائیں گے تو پھر ہی ان کا چولہاچلے گا ورنہ شاید ”فریز ”کمروں میں سوئے ان” افسران” یاپھر ہمارے ”سیاسی لیڈروں” کو کیا علم کہ مزدور کے بچے آج پھر” بھوکھا” سو رہے ہیں۔۔۔
آج تک سمجھ نہیں سکی کہ ہمارے ہاں مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر بڑی بڑی تقریبات منعقد کرنے سے بچارے ”مزدور”کو کیا حاصل ہوتا ہے اور کیا اپنے بنیادی حقوق کی جنگ لڑنے والوں کو ان بلند و بانگ دعوئوں سے آج تک کیا ملاہے ، ہر سال بجٹ میں مزدور کی تنخواہ میں معمولی اضافہ جبکہ ”مزدور” کا خون نچوڑنے کیلئے آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی مہنگائی۔۔۔لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے ان لیڈران کو کب خیال آئے گا ہمارا ”مزدور”کس قدر پریشانی سے دوچار ہے اور اس کے بچے ساری زندگی مایوسیوں میں کیوں بسر کردیتے ہیں۔
کیا ”مزدور” کے بچوں کے دل ودماغ میں ان ہائی پروفول عناصر کے ”ممی ڈیڈی”بچوں کی طرح خیال اورخواہشات جنم نہیں لیتی ہونگی،کیا ان کے بچوں کے خون کا رنگ ”مزدور”کے بچے کے خون کے رنگ سے نہیں ملتا۔۔۔؟ کیا اچھی تعلیم ، اچھا ماحول اور روشن مستقبل ”مزدور”کے بچوں کے ہاتھوں کی لکیر اور دسترس میں نہیں ہوسکتا ۔۔۔؟اور پھر کیا جن محنت و مشقت کی وجہ سے اس ”وڈیرے”اور ”سیٹھ”کے گھر کو ٹھنڈے کیا ہوا ہے وہ اس” مزدور ” کی روزانہ یا ماہانہ اجرت اس کی محنت کے مطابق بروقت ادا کررہاہے اگر ”مزدور”کو اس کا حق پورا اور بروقت ادا کیا جارہاہے تو پھر حالات بدلتے نظر بھی آنے چاہیں، مگر افسو س صد افسوس کہ ایسا نہیں ہورہا اور نہ ان ”وڈیروں”اور ”سیٹھوں”کو کوئی پوچھنے والا ہے۔۔۔
ایک دن کی ان مختلف تقاریب میں مزدوروں کیلئے پیش کی جانیوالی تجاویز پر کون عمل کرے گا اور غریب و مزدور کو ان کا بنیادی حق کون دلائے گا، ہمارا مزدور طبقہ اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے اور کہاں تک کا سفر کرے گا، اور کب ان کے روشن مستقبل کی نوید ابھر کر سامنے آئے گی، اور کیا ہمارے ان ”وڈیروں ”اور ”سیٹھوں ”کو احساس ہوسکتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارا” مزدور ”کہاں کھڑا ہے جس کی بدولت ہم ”وڈیرے”اور ”سیٹھ ”بنے بیٹھے ہیں۔
مزدوروں کے بنیادی حقوق دینے کیلئے ٹھنڈے کمروں میں صرف ایک دن بات کرلینا ہی کافی نہیں حقیقی اور عملی خدمات کرنا ہونگی،روزبروز بڑھتی مہنگائی نے غریب عوام بالخصوص”مزدور”کا جینا مزید دشوار کردیا ہے۔ اب اپنے حصے کی وسیع و عریض جائیداد اور دیگر بنک اکائونٹس میں سے کچھ نہ کچھ ہمیں ”مزدوروں ”کو بھی دینا ہوگاتاکہ ہمارا ”مزدور”اور اس کے بچے بھی ہمارے شکرگزار ہوسکیں ان کے خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوسکیں ۔۔۔صرف ایک دن کیلئے نہیں بلکہ ہمیشہ کیلئے، دعا ہے اللہ رب العزت ہمارے ”وڈیروں ”اور سیٹھوں ”سمیت حکمرانوں کو مزدوروں کیلئے عملی اقدامات کرنے کی فی الفور توفیق عطا فرمائے (آمین)۔