تحریر: فریحہ احمد کچھ روز قبل ایک سڑک سے گزر ہوا .. لوگوں کا مجمع لگا ہوا تھا, دیکھ کر گھبراہٹ ہوئی اور تشویش بھی. دل میں بے اختیار اس مجمع کی وجہ جاننے کی خواہش بیدار ہوئی. زرا قریب جانے پر معلوم ہوا کہ یہ بھیڑ مزدورں کی ہے جو سڑک کنارے روزگار کے حصول میں یہاں بیٹھتے ہیں۔ وہاں جیسے ہی کوئی سرمایہ دار مزدور کی تلاش میں آتا تو تمام مزدور اسکے گرد جمع ہو جاتے اور ہر مزدور کی پوری کوشش ہوتی کہ سرمایہ دار اسکا انتخاب کرے.یہ منظر دیکھ کر دل بھر آیا.
پیاس سے گلہ سوکھ رہا تھا۔ احساس ہوا کہ اس تیز دھوپ میں کھلے آسمان تلے تپتی سڑک پر دس منٹ کھڑے رہنا اتنا تکلیف دے رہا تھا تو یہ لوگ جو صبح سے یہاں روزگار کیلیے کھڑے ہیں نکی کیا حالت ہوتی ہو گی. پھر کچھ بھیڑ ہلکی ہوئی اور چند مزدور میری جانب بڑھے شاید یہ سوچ کر کہ میں بھی کسی مزدور کی تلاش میں یہاں آئی ہوں۔ میں نے ان سے کچھ سوالات کیے مگر بہت ہی کم مزدور ایسے تھے جو میرے سوالات سمجھ سکے جبکہ بیشتر ایسے تھے جو یہ جان کر واپس جا چکے تھے کہ میں کوئی سرمایہ دار نہیں اور,نہ ہی میں انہیں کوئی کام دلوا سکتی ہوں.
وہاں کھڑے کئی مزدورں کو اپنے حقوق و اہمیت کا اندازہ ہی نہیں تھا انہیں تو بس مزدوری چاہیے تھی خواہ وہ ایک ہی دن کی مزرودی کیوں نہ ہو! پھر میں نے یکم مئی کا زکر کیا بہت کم مزدور اس دن کے پسِ منظر سے اس دن کی تعطیل سے بھی ناواقف تھے۔ میں نے جب یکم مئی کی تعطیل کا زکر کیا تو کسی نے کہا کہ یہ تعطیل دفاتر میں بیٹھے افسران کے لئے ہوتی ہے ہمارے لئے نہیں.. ہمیں چھٹی کی ضرورت نہیں ہے روزانہ کام ملنے کی ضرورت ہیاسی سے ہمارے گھر کا چولہا جلتا ہے۔ اس جملے نے میرے تمام سوالات وہیں دفن کر دے.. میں خاموشی سے وہاں سے چلی آئی… مطلوبہ جگہ پہنچی.. میری سماعتوں نے لفظ “کاش” کو اپنی سمت متوجہ کیا.
Labour Rights
احباب کے اداس چہرے اور ان کی زبانوں سے لفظ کاش سن کر پھر تشویش ہوئی. نجانے کیوں خیال آیا کہ شاید یہ لوگ بھی یکم مئی کے حوالے سے بات کر رہے ہیں. معلوم ہوا کہ اس بار یکم مئی اتوار کے روز آرہا ہے۔ اور تمام احباب افسردہ ہیں اور کہہ رہے تھے، کہ کاش یہ چھٹی ہفتہ وار چھٹی کے ساتھ آجاتی تو مزہ آجاتا.ایک چھٹی ماری گئی۔ کمرے میں اے سی کی ٹھنڈک اب مجھے اس تیز دھوپ سے زیادہ چبھ رہی تھی۔ میرے پورے وجود میں اک لہر سی ڈور گئی.
میں نے یوں ہی انجان بنتے ہوئے ان سے یکم مئی کے پسِ منظر کے حوالے سے کچھ سوالات کیے. مگر افسوس کوی خاطر خواہ جواب نہ ملا.پورے سال میں کتنی ہی سرکاری تعطیلات ہوتیں ہیں. اہم شخصیات کے ایام وفات و پیدائش, حادثات کی برسی تقربات وبیانات کے ساتھ منانا,ایک رسمی کاروائی بن چکی ہے. مگر ہم میں سے اکثر افراد ان تعطیلات کے تاریخی پسِ منظر سے ناواقف ہوتے ہیں، اور ستم ظریفی یہ کہ ایسے چند ایام پر ملک بھر میں چھٹی منائی جاتی ہے، اور اگر یہ چھٹی ہفتہ وار چھٹی کے ساتھ آ جائے تو واہ کیا ہی بات ہے۔ یہ ایام اب ہماری قو موں کے لئے ایک تعطیل کی حیثیت آکر گزر جاتے ہیں۔ یہ اور ایسے کئی تاریخی واقعات وہ کتابیں ہیں جو ہماری قوم کے بستے میں موجود رہتی ہیں مگر ایک نالائق طالبعلم کی طرح ہم انہیں کبھی نکال کر پڑھنا گوارہ نہیں کرتے۔ یومِ مئی دراصل مزدورں پر مظالم, تشدد, بربریت اور استحصال کے خلاف 1886 میں مزرورں کے منظم احتجاج کی یادگار ہے۔
اسکا مختصر پسِ منظر کچھ یوں ہے کہ 1886 میں امریکہ کے محنت کشوں نے 14 گھنٹے کی ڈیوٹی کو کالعدم قرار دیا اور 8 گھنٹے تک ڈیوٹی کا مطالبہ کر دیا. Eight hour leagues کے پلیٹ فارم سے مزدور تحریک کا آغاز کیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مزدورں کی ایک کثیر تعداد اس تحریک کا حصہ بنتی چلی گئی. یکم مئی 1886 کو امریکہ کے شہر شکاگو میں 2 لاکھ 50 ہزار سے زائد مزدورں نے احتجاج کیا اس پر امن احتجاج کو منتشرکرنے کیلئے حکومت کی جانب سے مختلف ہتھ کندے اختیار کیے گئے. احتجاجی مظاہروں میں پولیس کے تشدد, لاٹھی چارج اور فائرنگ سے کئی مزدور شہید اور سینکڑوں کی تعداد میں گرفتار کر لیے گئے.
Labour Day
شکاگو کی گلیوں میں مزدورں کے بہنے والے خون میں وجہ سے مزدورں ملنے والی حاصلات کو سامنے رکھتے ہوئے 1889 میں سرخ جھنڈے کو محنت کشوں کے عالمی نشان کے طور پر منظور کیا گیا اور یکم مئی کو عالمی یوم ِمزدور ٹھرایا گیا. جسکے بعد پوری دنیا کے محنت کش ہر سال یکم مئی کو شہدائ شکوگو کی ان عظیم قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کے مسائل کے حوالے سے اس دن کو تجدید عہد کے طور پر مناتے ہیں۔ مگر آج ہم یومِ مزدور مناتے ہوئے ہماری اس دن کے تاریخی پسِ منظر سے لاعلمی اس دن کی اہمیت کو مسخ کرنے کے لئے کافی ہے۔ ہمارے یہاں یہ دن محض ایک چھٹی کی حیثیت لئے باعثِ مسرت ہے۔ ہم نہ صرف اس دن کے حقیقی مقصد کو بھول چکے ہیں، بلکہ محنت کشوں کی اپنی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کی گئی حاصلات کو چھننے کا عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سڑکوں کے عام مزدورں کی معالی مشکلات کا ازلہ اور ان کی بد حالی کے سدباب کا کوئی منتظم پروگرام اور کوئی ٹھوس منصوبہ دنیا کی کسی بھی بڑی حکومت کے پاس بھی نہیں مگر زبانی جمع خرچ کے اعتبار سے ہر ملک اور ہر حکومت ایک دوسرے سے گویا سبقت لے جانے کی کوشش میں ہے۔ مگر کیوں ہمیں اور ہمارے عہدیداران کو سڑک کا یہ مزدور نظر نہیں آتا جو روز صبح چوک پر اپنی مزدوری کا انتظار کرتا ہے۔ جو صبح مزدوری کرتا ہے تو رات کو اس,کے گھر چولھا جلتا ہے۔ کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری چھٹی کے ساتھ ہی اس کے گھر میں فاکہ کی آمد ہوتی ہے,انہیں چھٹی نہیں روزگار چاہئے.ایسے مزدورں کی زندگی میں آج کل کیمنا ے جانے والے یومِ مزدور کی نہ تو کوئی حثیت ہے اور نہ ہی کوئی فائدہ.
چمن کو اس لیے مالی نے سینچا تھا خون سے کہ اسکی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں!