دماغ گہري نيند کے دوران دن بھر کے واقعات کا جائزہ ليتا ہے
چوہوں پر کي جانے والي تازہ تحقيق سے معلوم ہوا ہے کہ نيند پوري نہ ہونے کے باعث يادداشت کي صلاحيت متاثر ہوتي ہے-
نيشنل اکيڈمي آف سائنس فائنڈنگز کي جانب سے کي جانے والي تحقيقات سے حافظہ کے بارے ميں مزيد معلومات اکٹھي کي جا سکتي ہيں جس سے الزائمرز (نسيان) اور نيند ميں دم گھٹنے سے آنکھ کھلنے جيسي بيماريوں کا علاج نکالا جا سکتا ہے-
امريکي يونيورسٹي سٹين فوя کي تحقيق کے مطابق ايسے چوہوں کو جن کي نيند پوري نہيں ہوئي تھي انہيں جاني پہچاني ايشياء کو بھي پہچاننے ميں دشواري ہوئي- نيند ايک برطانوي کے ماہر کا کہنا ہے کہ :
دماغ گہري نيند کے دوران دن بھر کے واقعات کا جائزہ ليتا ہے اور يہ طے کرتا ہے کہ ان سب واقعات ميں سے حافظہ ميں کيا محفوظ کرنا ہے- چوہوں پر کي جانے والي آپٹو جينٹکس نامي تکنيک ميں صرف نيند پوري نہ ہونے کا جائزہ ليا گيا تھا-
اس ترکيب سے نيند ميں ہي چوہوں کے دماغ ميں روشني کا کرنٹ دے کر ان پر تحقيق کي گئي- چوہوں کي نيند متاثر کرنے کے بعد انھيں ڈبوں ميں بند کيا گيا جن ميں دو چيزيں موجود تھيں- ايک جن سے چوہے واقف تھے اور دوسري جن سے وہ ناواقف تھے-
جن چوہوں کي نيند متاثر کي گئي تھي انھوں نے دوسرے چوہوں کي نسبت دونوں چيزوں کے جائزے ميں دير لگائي جبکہ جن چوہوں کي نيند متاثر نہيں کي گئي تھي ان چوہوں نے صرف ان ہي اشياء کا جائزہ ليا جن سے وہ ناواقف تھے-
Sleep Deprivation and Memory Loss
ڈاکٹر لوئي ڈي ليکا کے بقول : ’بھر پور نيند کي کمي کئي پيچيدگيوں کي وجہ بن سکتي ہے جن ميں يادداشت سے منسلک بيمارياں جيسے الزائمرز وغيرہ شامل ہيں-‘ محققين کا کہنا تھا ’اس تحقيق سے ہم اس نتيجے پر پہنچے کہ اگر اس بات کو مدنظر نہ بھي رکھا جائے کہ نيند کا معيار کيسا اور دورانيہ کتنا ہونا چاہيے پھر بھي ہمارے مطابق بھсور نيند کا لازمي دورانيہ حافظہ کو مستحکم رکھنے کے ليے ضروري ہے-‘