تحریر: سمیرا بابر ہمارے معاشرے کی بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ بے حجابی ہیں خواتین کا حجاب کے بنا باہر نکلنا ،گھومنا پهرنا اور بازاروں میں جانا ہیں ہماری مشرقی روایت میں مغربی طرذ طور اپنائے جارہے ہیں جو کافی حد تک بربادی کا باعث بن رہے ہیں خواتین گھر میں تو بکھرے بال اور پسینے میں شرابور ہوتی ہیں اور گھر سے باہر خوب سج دهج کی تیاری کے ساته نکلتی ہیں یہ شرعی لحاظ سے غلط ہیں خواتین کو اپنے شوہروں کے لیے سجنا سنورنا چاہیئے اور انہی کو دکھانا چاہیئے خواتین کی زیب و آرائش صرف ان کے شوہروں کے لئے ہونا چاہیئے مغربی طرز کی وجہ سے ہماری خواتین عمومآ لڑکیاں ننگے سر باہر نکلنے کو ترجیع دیتی ہیں اور حجاب کو چھوٹی سوچ کا نام دیتی ہیں اکثریت کا کہنا ہیں کہ پردہ دل کا ہونا چاہیئے کیا ان لوگوں کے دل ہمارے پیارے نبی کی صاجزادیوں سے زیادہ پاک ہیں؟۔
اللہ نے ان پاک ہستیوں کو بهی پردے کا حکم فرمایا..” حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی نے حضرت علی رضی اللہ تعالی سے فرمایا: اپ میرا جنازہ رات کے وقت اٹهایئے گا تاکہ میرے جنازے پر کسی نامحرم کی نظر نہ پڑے” کیا ہمیں ان ہستیوں سے سیکھنا نہیں چاہیئے؟ آج ہم مشہور ایکٹروں کو اپنا آعیڑیل بناتے ہیں ان کے فیشن کو (فولو) کرتے ہیں کیا ہمارے لئے ان عظیم ہستیوں کی زندگی آعیڈیل نہیں ہونی چاہیئے؟ جو ہمیں دوزخ سے بچاسکتی ہیں جو ہمیں ہر براءاور فتنے سے دور رکه سکتی ہیں جو ہمیں شرم و حیا کا درس دیتی ہیں عورت کو پردے کا حکم دیا گیا اور بار بار دیا گیا ہیں “” اے آدم ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا ہیں جو تمہارے قابل پردہ بدن کو چھپاتا ہیں اور تقوی کا لباس سب سے بڑهہ کے ہیں “”” (سورته عرف 26: 7) آج کے ترقی یافتہ دور میں جہاں عورت مردوں کے شانہ با شانہ کام سر انجام دے رہی ہیں۔
اعلی تعلیم یافتہ خواتین جو عورتوں کے حقوق پر بے لاگ تبصرے کرتی نظر آتی ہیں پر افسوس کسی بھی خواتین کا عورتوں کے شرعی حجاب پر کوءدهیان نہیں بے حجابی کی سب سے بڑی تباہی بے حیاءاور فحاشی ہیں جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں ہم ان چیزوں سے تو اجتناب برتتے ہیں جن سے ہمیں کوءنقصان درپیش ہو لیکن ہم بے پردگی کے نقصان سے نہیں بچنا چاہیتے اسلام میں فحاشی اور بے حیاءحرام قرار دی گءہیں بے پردگی کی ایک اور بڑی تباہی زنا ہیں جو ہماری نوجوان نسل کو تباہ و برباد کررہی ہیں در حقیقت عورت کی عظمت پردے میں ہی ہیں اسکول و کالج اور یونیورسٹیوں میں دنیاوی تعلیم تو دی جارہی ہیں مگر دینی تعلیم پر کوءتوجہ نہیں مرد حضرات سے ٹیوشن پڑھنا آج کے دور کا فیشن بنا ہوا ہیں۔
Young Male Teacher
جس میں کثرت سے نوجوان مرد استاد حضرات ہیں اس سے لڑکیوں کی نامحرم سے بات کرنے کی جھجک ختم ہورہی ہیں اور اسطرح استاد سے روز بروز ملنے سے تعلق استوار ہورہے ہیں ہمارے مزہیب میں واضع ہیں محرم اور نا محرم میں فرق، اسلام میں پردہ چاہے آنکھوں کا ہو یا آواز کا ہو یا چھرہ ڈھاپنے کا لیکن پردہ بہت ضروری قرار دیا گیا ہیں ہمارے معاشرے میں 45 فیصد خواتین پردے کو اہمیت دیتی نظر آتی ہیں اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں پردے کے فوائد سے فائدہ اٹهارہی ہیں اسلام کا ڈنکا تو ہر کوءبجارہا ہیں پر اسلام کے اصولوں پر چلنا کسی کو بهی گوارا نہیں ہماری روایت میں حجاب دور دور تک نظر نہیں آرہا۔
جہاں معمولی سے معمولی اشیائ کے اشتہار میں خواتین کا بے باک انداز دکهانا لازمی ہو جہاں عورت بنا دوپٹے گهر سے نکلنے کو ترجیع دیتی ہو وہ ملک اسلامی ریاست کیسے کہلایا جاسکتا ہیں دور چاہے نیا ہو یا پرانا عورت کی عصمت کل بهی اہیم تهی اور آج بهی اہیم ہیں “کل جسے چهو نہیں سکتی تهی فرشتوں کی نظر وہ آج رونق بازار نظر آتی ہیں “” پردہ عورتوں کا اصل گہنا ہیں جو سابق دور کی جھلک دکھاتی پھررہی ہیں “” ایک بزرگ کے پاس ایک لڑکی آءاور کہنے لگی کہ ان نوجوانوں کو سمجھایئے کہ جب لڑکیاں گزرتی ہیں تو اپنی نظریں نیچی رکها کرے شیخ نے فرمایا.. بتایئے اگر آپ ہاته میں بغیر ڈھانپے گوشت لے کر جائے اور کتے بھونکے تو آپ کیا کرے گی… اس نے کہا کہ میں کتوں کو بھگاوگی ..شیخ نے کہا .نہیں بھاگے تو: اس نے کہا میں اپنی آخری کوشش لگادوگی .. شیخ نے کہا اس طرح تو آپ بڑی مشقت میں پڑ جائے گی۔
Responsible
اس کا آسان حل یہ ہے کہ اس گوشت کو کسی کپڑے سے ڈھانپ کر باہر نکلو پھر یہ کتے نہیں بھونکے گے . اکثر لوگ آج کی عورت کی بے حجابی کا ذمہدار والدین اور میڈیا کو ٹهراتے ہیں بات یہ بهی غلط تو نہیں مگر یہاں سارا قصور کا بهی نہیں کیونکہ کءلڑکیاں والدین کے گهر میں حجاب اوڑهتی ہیں مگر ان کے نام نہاد شوہر ان کا حجاب اتروا دیتے ہیں کیونکہ پردے سے ان کو شرم محسوس ہوتی ہیں پردہ ان کو دور قدیم کی یادگار دکھاءدیتا ہیں نام نہاد سیکولر سوچ کے مالک ماڈرن لوگ جو پردے کو براءاور دقیانوسی شے سمجھتے ہیں ان کو پتا ہونا چاہیئے آج کے نیم عریاں لباس زمانہ قدیم کے اس دور کی یاد دلاتے ہیں جب انسان برهنہ گھوما کرتا تها اس کو شعور آیا تو اس نے جسم ڈهانپا اور آج کے دور میں عریانیت ہی ماڈرن ہونے کی پہچان ہیں جانوروں سے بڑهہ کر کوءماڈرن نہیں یہاں۔
عورت کو پردہ کرنے کی سب سے بڑی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہیں عورت کی اصلاح کرنی ہے تو مرد کی اصلاح بهی ضروری ہیں کہ وہ اپنی زمہ داری قبول کرے عورت اگر فتنہ ہیں تو اس کو فتنہ بنانے میں مردوں کا بهی برابر کا حصہ ہیں لہزا مرد اپنے آپ کو اس ذمہ داری سے بری الزمہ قرار نہیں دے سکتے جس کی بیوی با حجاب ہوگی اسکی بیٹی بھی باحجآب ہوگی “”” اے نبی اپنی بیوی اور اپنی بیٹیوں کو اور مومنوں کی عورتوں کو فرمادیں کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں ڈال لیا کرے یہ قریب تر ہیں کہ یہ پہچان لی جائے تو انہیں نہ ستایا جائے اور اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہیں (سورت احزاب 59) اسلام نے معاشرے کی اصلاح اور براءو بے حیاءکی روک تهام کیلیے کیسا مکمل اور جامع نظام معاشرتی مسلمانوں کو دیا ہیں لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں آج اس نظام کی کوء جھلک نظر نہیں آرہی۔
Women Fashion
دور جدید کی عورت ترقی اور آزادی کے نام پر اپنے حسن و زیبائش کی نمائش کرتی پھررہی ہیں اور اسے روکنے والا نام نہاد مسلمان اس کی حوصلا افزاءکررہا ہیں بے پردگی اور بے حیاءدور جاہلیت کی نشانیاں ہیں اور عورت کا بے پردہ ہونا نہ صرف معاشرتی تباہی کی وجہ بنتا ہیں بلکہ اللہ اور اسکے رسول کی ناراضگی کا بهی باعث بنتا ہیں اور اسی لئے مسلمان روز بروز اخلاق اور معاشرتی پستی کا شکار ہو کر دنیا میں پریشان ہیں اللہ ربالعزت سے دعا ہیں کہ مسلمانوں کو یہود و ہنود کے طریقوں سے بچاکر قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنے معاشرے کی اصلاح اور اسلامی قوانین نافز کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مسلمان عورتوں کو پردہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ آنے والی نسلیں سب ان کی گود میں پروان چڑهے تو شرم وحیاجیسی خوبیاں پیدائشی طور پر ان میں موجود ہو۔
تحریر: سمیرا بابر Writer Club (Group) Email: urdu.article@gmail.com Mobile No: 03136286827