اسلام آباد (جیوڈیسک) لاہور میں گزشتہ ماہ گرفتار ہونیوالے داعش کے مبینہ کمانڈر یوسف السلفی نے امریکا میں رابطوں اور فنڈز ملنے کااعتراف کیا ہے۔
تحقیقات سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ یوسف السلفی نے تفتیش کے دوران بتایا ہے کہ پاکستان میں تنظیم کو چلانے اور شام میں لڑائی کیلیے نوجوانوں کی بھرتی کیلیے اسے رقوم ملتی رہی ہیں۔ ان ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی نژاد شامی یوسف السلفی ترکی کے راستے پانچ ماہ پہلے پاکستان میںداخل ہوا تھا۔وہ ترکی میں پکڑا بھی گیا لیکن وہاں سے فرار ہوکر پاکستان پہنچ گیا۔
ان ذرائع نے بتایا کہ سلفی کو امریکا سے فنڈز ملنے کا معاملہ امریکی وزیرخارجہ جان کیری کے حالیہ دورہ اسلام آبادکے دوران بھی اٹھایا گیا۔ امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل لائیڈآسٹن کے دورہ اسلام آبادکے دوران بھی یہ معاملہ اٹھایاگیا۔ سلفی نے تفتیش کے دوران اعتراف کیاکہ وہ ایک پاکستانی امام مسجد کے ساتھ مل کر شام میں لڑائی کے لئے نوجوانوں کو بھرتی کرتا تھا اور ہر بھرتی پراسے600 ڈالر ملتے تھے۔
ان ذرائع نے بتایا کہ امریکا شدت پسند تنظیم داعش اور اسلامک اسٹیٹ کی سرگرمیوں کی سخت مذمت توکرتا ہے لیکن ان تنظیموں کو اپنے ملک سے فنڈنگ نہیں رکوا سکا۔ ان ذرائع نے کہا امریکا کویہ تاثر زائل کرنا ہوگا کہ وہ اپنے مفادات کیلیے مذکورہ گروپ کو رقوم دے رہا ہے اوریہی وجہ ہے کہ وہ تنظیم کیخلاف عراق میں تو کارروائی کرتا ہے لیکن شام میں نہیں۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ داعش دوسرے ممالک کے علاوہ لیبیا، افغانستان، پاکستان اوربھارت کے شہریوں کو شام میں لڑائی کیلیے بھرتیاں کررہی ہے۔ پاکستان میں مختلف شہروں میں دیواروں پر داعش کے پوسٹر بھی لگائے گئے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے کئی بارکہا ہے کہ پاکستان میں اسلامک اسٹیٹ سرگرم ہے۔
اس تنظیم کی سرگرمیوں کو سنجیدگی سے نہ روکاگیا توملک کوایک نئی جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یوسف السلفی اورلاہور میں اس کے ساتھی امام مسجد کی گرفتاری نے تصدیق کردی ہے کہ داعش پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کررہی ہے۔ داعش کومضبوط ہونے سے روکنے کیلئے حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیوں کو ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔
یاد رہے1990 میں نواز شریف کے پہلے دورمیں کالعدم تنظیم کے کچھ ارکان گرفتار کئے گئے تھے جنھوں نے تفتیش کے دوران اعتراف کیا تھاکہ ان کے امریکہ میں رابطے ہیں اور انھیں اپنے امور چلانے کیلیے وہاں سے فنڈز ملتے ہیں۔ ان ملزمان کے قبضہ سے سٹی بینک نیویارک کے کچھ کریڈٹ کارڈ بھی ملے۔
انھوں نے اعتراف کیا کہ مذکورہ بینک میں ان کے کھاتے ہیں اور امریکا سے فنڈز ملتے ہیں۔ اس وقت بھی یہ معاملہ امریکی حکام سے اٹھایا گیا تھا لیکن امریکا نے اپنی سرزمین سے ایسی فنڈنگ روکنے کیلیے کوئی ٹھوس پیشرفت نہیں کی تھی۔