تحریر : محمد صدیق پرہار ملک میں دہشت گردی کا سلسلہ پھر سے تیز ہو گیا ہے۔ آٹھ اگست دو ہزار سولہ کو سول ہسپتال کوئٹہ میں خودکش دھماکہ ہوا، جس میں ساٹھ وکلاء سمیت اکہتر افراد شہید جبکہ ایک سو چالیس افراد زخمی ہو گئے۔ صبح کے وقت صدر ہائی کورٹ باربلال کاسی کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی وکلاء ان کی میت لینے پہنچے تو ایمرجنسی وارڈ میں دھماکہ ہو گیا فائرنگ بھی کی گئی۔
دھماکہ میں آٹھ کلوگرام دھماکہ خیزمواداستعمال ہوا۔گیارہ فروری کودوہزارسولہ کوکوئٹہ میں ہی جج کے قافلے پربم حملہ ہواجس میں چار پولیس اہلکاروں سمیت سترہ افرادزخمی ہوگئے۔پچیس اگست کوگوادرمیں دہشت گردوں کے حملے میں چھ لیویزاہلکاراورتحصیلدارشہیدجبکہ رسالدار میجر سمیت تین افرادزخمی ہوگئے۔سال دوہزارسولہ میں ہی دوستمبر کو مردان میں کچہری میں خودکش حملہ ہواجس میں تیرہ افرادجاں بحق ہوگئے۔دھماکے کے نتیجے میں 35 افراد زخمی ہوگئے۔
اسی روزپشاورمیں دہشت گردی کاحملہ ناکام بنادیاگیا۔چار اکتوبر دوہزارسولہ کوکوئٹہ میں نامعلوم افرادنے بس پرفائرنگ کردی جس سے پانچ خواتین جاںبحق جبکہ درجنوں زخمی ہوگئیں۔رواں سال تیرہ فروری کولاہورمیں پنجاب اسمبلی کے سامنے چیئرنگ کراس میں فارماانڈسٹری پنجاب کیمسٹ کونسل اورمیڈیکل سٹورایسوسی ایشن کے احتجاج کے دوران خودکش حملہ ہوگیا جس میں سینئرپولیس افسروں سمیت گیارہ افرادشہیدجبکہ سترسے زائدزخمی ہوگئے۔شہداء میں ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن (ر) مبین اورایس ایس پی آپریشنززاہدگوندل بھی شامل تھے۔اسی روزکوئٹہ میں بھی سریاب پل کے قریب دھماکہ اورفائرنگ سے تین افرادشہیدجبکہ نوزخمی ہوگئے۔ اسی روزجبوبی وزیرستان میں میں بم حملے میں تین ایف سی اہلکارشہیدیہ ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ تھا۔
پندرہ فروری کو پشاوراورمہمندایجنسی میں خودکش حملوںمیں آٹھ افراد شہیدجبکہ متعددزخمی ہوگئے۔چھ مارچ کومہمندایجنسی میں افغانستان کی طرف سے تین پاکستانی سرحدی پوسٹوںپردہشت گردوںنے حملہ کیا جس سے پانچ جوان وطن پرقربا ن ہوگئے جوابی کارروائی میں پندرہ دہشت گردمارے گئے۔اکیس فروری کوچارسدہ کی تحصیل تنگی میں کچہری گیٹ کے باہرتین خودکش دھماکوں کے نتیجے میں ایک قانون دان سمیت آٹھ افرادشہیدجبکہ بائیس زخمی ہوگئے،دہشت گردوںکی فائرنگ اوردستی بم حملوںکے بعدسیکیورٹی فورسزنے جوابی کارروائی کرتے ہوئے دوحملہ آوروںکوموقع پرانجام تک پہنچایاجبکہ ایک خودکش حملہ آوربھاگتے ہوئے پولیس سے مقابلے میںماراگیا۔ اکتیس مارچ کوپاراچنارمیں امام بارگاہ کے قریب کاربم دھماکہ ہوا۔جس سے دوبچوں سمیت چوبیس افرادجاںبحق پچاس دیگرزخمی ہوگئے۔پاراچنارکے نوربازارمیںہونے والادھماکہ خود کش تھا۔حملہ آوروںنے لیویزاہلکاروںپرفائرنگ بھی کی۔دھماکے سے متعددگاڑیاں اوردکانیں تباہ ہوگئیں۔
ایک اوراخبارکی خبر کے مطابق زخمیوں کی تعدادپچاسی ہے۔اب پانچ اپریل کولاہورمیں بیدیاں روڈ پرمردم شماری کی ٹیم پران کی وین کے قریب حملہ ہوا۔ جس سے چارفوجی جوانوںاورایک فضائیہ کے اہلکار سمیت سات افرادشہیدہوگئے ہیں۔ پاک فوج کے جوان اورمحکمہ تعلیم کے اساتذہ مردم شماری کے لیے وین میںنکل رہے تھے کہ گھات لگائے خود کش بمبارنے گاڑی کے قریب پہنچ کرخودکواڑالیا، یوںدوماہ میںلاہورمیں دہشت گردی کادوسراواقعہ ہوگیا ہے۔ حملے کے بعدکورکمانڈرلاہورلیفٹیننٹ جنرل صادق علی نے دھماکے کی جگہ کادورہ کیا،پنجاب رینجرکے ونگ کمانڈربھی جائے وقوعہ پرپہنچے،فوج، رینجرز،سی ٹی ڈی اورپولیس حکام نے علاقے کوسیل کرکے شواہداکٹھے کیے۔پنجاب حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لیے سیکرٹری داخلہ، ایڈیشنل آئی جی پولیس اورایس پی سی ٹی ڈی پرمشتمل کمیٹی بنادی ہے،حملہ آورنے پیدل آکروین کے پیچھے سے دھماکہ کیا،دھماکے میں آٹھ سے دس کلوگرام باروداستعمال کیاگیا،رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب کوپیش کردی گئی،گاڑی مقررہ راستے سے ہٹاکرکیوں روکی زیرحراست ڈرائیورسے پوچھ گچھ شروع ہوگئی۔ لاہور میں ہونے والی دہشت گردی کی سابقہ واردات میںملوث افرادبھی سی سی ٹی وی کیمروں کی مددسے پکڑلیے گئے تھے۔
تیرہ فروری کولاہورمیںہونے والی دہشت گردی میں دہشت گردلاہورکے سہولت کارکی مددسے افغانستان سے آیاتھا۔اب ایک بارپھرلاہورلہولہوہوگیا ہے۔اب سیکیورٹی ا ہلکارسی سی ٹی وی کیمروںکی فوٹیج لے گئے ہیں۔دہشت گردی کاکوئی بھی واقعہ ہوجائے توسیاسی اورعسکری قیادت کی طرف سے مذمتی ردعمل ضرورسامنے آتاہے۔اب لاہورمیں بیدیان روڈ پرہونے والے دہشت گردی کے حملے کے بعدصدرمملکت ممنون حسین اور وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے مذمتی بیان سامنے آیا ہے۔صدرمملکت ممنون حسین کہتے ہیں کہ واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ،پوری قوم دہشت گردی کے خلاف متحدہے۔ انہوںنے دہشت گردی کی اس واردات کی شدیدمذمت کی ہے۔ اس سے پہلے تین مارچ کوسیکیورٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف سخت ترین پالیسی سے خطے کوفتنے سے نجات ملی۔ان کاکہناتھا کہ پاکستان دہشت گردوں کے بلاامتیازخاتمے کے لیے ثابت قدم رہے گا۔عسکری اورسیاسی قیادت میں اہدا ف کے حصول تک آپریشن جاری رکھنے پربھی اتفاق کیاگیا۔نوازشریف کایہ بھی کہناتھا کہ اب خوف اورفسادکادورختم امن کادورشروع ہوگیا۔گیارہ مارچ کوجامعہ نعیمیہ میں سیمینارسے خطاب اورپولیس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نوازشریف کاکہناتھا کہ دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ لڑرہے ہیں۔دہشت گردوںکے سہولت کارجلدانجام کوپہنچیں گے۔دہشت گردوں کے ہاتھ توڑ دیے اس سے پہلے دہشت گردوںکی کمربھی توڑدی گئی تھی۔وزیراعظم کاکہناتھا کہ جواکادکاکارروائیاںکررہے ہیں انہیں بھی نیست ونابودکردیں گے۔ستائیس مارچ کونوازشریف نے کہاکہ دہشت گردی کی کمرتوڑدی اسے ختم کرکے دم لیں گے۔
دہشت گردی کی وجہ سے کراچی میں کوئی غیرملکی آنے کے لیے تیارنہیں تھااپھرغیرملکی سرمایہ کارآرہے ہیں۔یکم ستمبرکوبھی وزیراعظم نے کہا تھا کہ دہشت گردوںکی کمرتوڑدی اچھے دن آنے والے ہیں۔آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ کاکہناہے کہ پاکستان میںاب کوئی نوگوایریانہیں ،ملکی سلامتی ودفاع اولین ترجیح ہے،امن مکمل بحال ہوچکا ہے، شہری بلاخو ف ہرجگہ آجاسکتے ہیں۔ملک میںامن وامان برقراررکھنے کے لیے پاک فوج کرداراداکرتی رہے گی۔ آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ نے لاہورخود کش حملہ میںشہیدہونے والے فوجی جوانوںکوزبردست خراج تحسین پیش کیا ہے،کہتے ہیں کہ سول اورفوجی جوانوںکی شہادت عظیم قربانی ہے۔ سعودی فرمانرواشاہ سلمان بن عبدالعزیزنے کہا ہے کہ دہشت گردی جہاں اورجیسی بھی قابل مذمت اورانسانیت دشمنی ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کاکہناہے کہ دہشت گردکاکوئی مذہب کوئی علاقائی شناخت نہیں۔وزیرداخلہ چوہدری نثارکاکہنا ہے کہ دہشت گردی میںکمی آئی ختم نہیںہوئی ،کچھ واقعات ہماری کوتاہی سے ہوجاتے ہیں۔کئی صوبوںکودہشت گردی کی پیشگی اطلاعات دیں مگرکوئی اقدام نہیں کیاگیا۔ مریم اورنگ زیب کاکہنا ہے کہ عوام نوازشریف کی قیادت میں دہشت گردی سے پاک پاکستان دیکھ رہے ہیں۔سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کاکہنا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومتی اقدامات کی حمایت کریںگے۔ان کایہ بھی کہناتھا کہ دہشت گردی کوجڑسے اکھاڑ پھینکنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔آئی جی ایف سی بلوچستان میجرجنرل ندیم انجم اوروزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری کہتے ہیں کہ دہشت گردی میں راملوث ہے،وفاقی وزیرداخلہ، گورنرپنجاب، وزیراعلیٰ سندھ سمیت سیاستدانوں اورمذہبی راہنمائوںنے بھی بیدیاں روڈ لاہورمیں دہشت گردی کی واردات کی مذمت کی ہے۔
پشاورکی طرح لاہوربھی دہشت گردوں کے نشانے پرہے ابھی پنجاب اسمبلی کے سامنے ہونے والی دہشت گردی کی واردات میں زخمی ہونے والوںکے زخم تازہ ہی تھے کہ لاہورمیں دہشت گردی کی ایک اورواردات ہوگئی۔اس دوران پی ایس کافائنل بھی لاہورمیں کھیلاگیا۔جس میں حکومت نے سنجیدگی سے سیکیورٹی کے انتظامات کیے تھے۔ پی ایس کے فائنل میں دہشت گردی کاخطرہ موجودتھا۔ا س لیے توپی ایس کافائنل لاہورمیںکرانے کی مخالفت بھی کی جاتی رہی، حکومت ہرحال میں پی ایس کافائنل لاہورمیں ہی کراناچاہتی تھی۔میچ کے دوران سیاسی بدنظمی کے علاوہ کوئی ناخوشگوارواقعہ پیش نہیںآیا۔پی ایس کافائنل وفاقی اورصوبائی حکومت کی ساکھ کابھی مسئلہ تھا۔ملک میںانٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے پہلے ہی بندتھے ۔کوئی بھی غیرملکی ٹیم پاکستان میں دہشت گردی کے خطرے کی وجہ سے کھیلنے کے لیے تیارنہیں تھی۔ اب پی ایس کے فائنل میچ میں بھی سری لنکاٹیم پرحملے کی طرح کوئی ناخوشگوارواقعہ ہوجاتا تواس سے نہ صرف حکومت کی ساکھ کونقصان پہنچتا بلکہ پاکستان میں ہمیشہ کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ میچ کھیلنابندہوجاتے۔اس لیے وفاقی اورصوبائی حکومتوںنے سیکیورٹی کے موثراقدامات کیے۔یوںمیچ کے دوران کوئی ناخوشگوارواقعہ رونمانہیں ہوا۔اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ حکومت سنجیدگی سے اقدامات کرے تووہ دہشت گردی کی وارداتوں کوروک بھی سکتی ہے۔ہم ہرواردات کے بعد اس کی ذمہ داری حکومت پرڈال دیتے ہیں ۔یہ بات کوئی غلط بھی نہیںہوتی۔کیوںکہ شہریوںکے جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت کی ہی ہے۔شہریوںکوبھی اس سلسلہ میں اپناکرداراداکرناچاہیے۔ دہشت گردی کی کوئی بھی واردات سہولت کارکی غداری کے بغیرنہیں ہوتی۔شہریوںکوبھی حکومت سے تعاون کرناچاہیے۔ کسی بھی مشکوک شخص کی اطلاع اپنے علاقہ کی پولیس یاخفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروںکوبروقت دینی چاہیے۔وفاقی اورصوبائی حکومتوںکوبھی چاہیے کہ وہ سیکیورٹی کے انتظامات کاازسرنوجائزہ لے کر یہ انتظامات مزیدموثربنانے کے اقدامات کریں۔دہشت گردوں اوران کے سہولت کاروںکوٹھوس شواہدکے بعد تختہ دارپرلٹکانے کاعمل بھی تیزکیاجائے۔تمام شہروںکے داخلی اورخارجی راستوںپرچیکنگ کانظام بھی موثر بنایا جانا چاہیے۔