تحریر ۔ایم ایم علی یوں تو پنجاب میں چار حلقوں دو قومی اسمبلی اور دو ہی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں، مگر لاہور میں ضمنی انتخابات کا جادو اس وقت سر چڑھ کر بول رہا ہے اس وقت جس حلقے پر پورے پاکستان کی نظریں لگی ہوئی ہیں وہ ہے لاہور کا این اے 122 ،جہاں سے مسلم لیگ (ن) کے سردار ایاز صادق تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو شکست دے کر فاتح قرار پائے تھے ،ایاز صادق کی کامیابی کو عمران خان نے چیلنج کر رکھا تھا ،اور الیکشن ٹربیونل نے اس قومی حلقے اور اسی حلقے کی صوبائی نشست میں ری پولینگ کا فیصلہ سنایا تھا۔
اس حلقے سے عمران خان نے ایاز صادق کی کامیابی کو چلینج کیا تھا اصولی طور پر چاہیے تو یہ تھا کہ عمران خان خود اس حلقے سے الیکشن میں حصہ لیتے لیکن انہوں نے ایک انتہائی مالدار آسامی عبدالعلیم خان کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا اور اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف کی اسٹیٹس کو ، کو توڑنے کی باتیں ایک بار پھرمحض سیاسی باتیں ہی ثابت ہوئیں۔لاہورکے حلقہ این اے 122 میں انتخابی معرکہ 11 اکتوبر کو لگے گا اس حلقے میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے کے امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہونے کی توقع کی جارہی ہے اور اس وقت دونوں جماعتوں کی جانب سے بھر پور الیکشن کمپین چلائی جاری ہے۔
اس حلقے کا ضمنی انتخاب ملکی سیاست میں انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے ۔ اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دونوں جماعتوں کی لیڈر شپ خود اس کمپین میں حصہ لے رہی ہے ،حکمران جماعت کی جانب سے حمزہ شہباز شریف نے گذشتہ روز اس حلقے میں ایک بڑی ریلی کی قیادت کی اور چند دن پہلے تحریک انصاف کے سر براہ عمران خان نے بھی اس حلقے میں ڈور ٹو ڈور کمپین کی اور گذشتہ روز اس حلقے میں ایک بڑے جلسے سے خطاب بھی کیا، اور تو اور بھا بھی ریحام خان بھی اس حلقے میں الیکشن کمپین چلانے میدان میں آ گئیں ہیں ۔ حالانکہ ہری پور میں ریحام خان سے الیکشن کمپین چلوانے کا تجربہ خاصہ ناکام ثابت ہوا تھااور عمران خان نے بھی ریحام خان کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے کی ہدائت کی تھی۔
PML N
قارئین کرام ! بادی النظر میں اس حلقے میں مسلم لیگ (ن) کا پلڑا بھاری رہا ہے ، چونکہ یہ حلقہ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اس لئے اس حلقہ میں ہونے والے انتخاب کو سیاسی حلقوں کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیا جارہاہے ۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کے اس حلقے میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا جبکہ اس کے بر عکس اس حلقے کے مقامی ذرائع کاکہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن اس حلقے میں کافی مضبوط ہے اگرچہ عمران خان کے خود اس حلقے میں کمپین چلانے سے حکمران جماعت کو ٹف ٹائم مل سکتا ہے۔
حکمران جماعت اگر یہ نشست ہار بھی جاتی ہے تو اسے قومی اسمبلی میں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اسمبلی میں حکمران جماعت کو اکثریت حاصل ہے ،لیکن سیاسی طور پر حکمران جماعت کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا ۔دوسری طرف تحریک انصاف کیلئے بھی اس نشست کی ایک اپنی اہمیت ہے، کیونکہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے تحریک انصاف کیلئے بہت مشکلات کھڑی کر دی تھیں اور تحرک انصاف کو فرنٹ فٹ سے بیک فٹ پر جانا پڑ گیا تھا لیکن الیکشن ٹربیونل کے یکے بعد دیگرے فیصلوں نے دوبارہ تحریک انصاف کو اپنے پائوں پر لا کھڑا کیا ہے۔
اب اس نشست پر تحریک انصاف کا جیتنا اس لیے بھی ضروی ہے کہ تحریک انصاف کہتی رہی ہے کہ اس حلقے سے ہمیں دھاندلی کے ذریعے ہارایا گیا ہے ۔ اب اگر تحریک انصاف اس حلقے سے جیت جاتی ہے تو اس کے دھاندلی والے موقف کو مذید تقویت ملے گی بصورت دیگر مسلم لیگ (ن) اس کو آڑے ہاتھوں لے گی ۔ حکمران جماعت بھی کسی صورت یہ نہیں چاہے گی کے تحریک انصاف اس حلقے سے جیتے ۔ لیکن ان سب کے باوجود اب دیکھنا یہ ہے کہ اس حلقے کی عوام اپنا وزن کس کے پلڑے میں ڈالتی ہے وہ ماضی کو دہراتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کو کامیاب کرواتی ہے یا پھر اس بار اپنی ہمدردیاں تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈالتی ہے۔
PTI
یہاں پر ایک اور بات قابل ذکر یہ ہے کہ اگر حکمران جماعت اس نشست پر شکست کھا گئی تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی شکست کو تسلیم کر لے، لیکن اس کے بر عکس تحریک انصاف کیلئے اپنی شکست کو قبول کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیجئے کہ خان صاب نے اپنے خطاب میں بھی یہ بات کہی ہے کے وہ الیکشن کے نتائج دیکھ کر فیصلہ کریں گے کہ ان نتائج کو قبول کرنا ہے یا نہیں ۔ قارئین کرام! جیسے جیسے الیکشن کا دن قریب آرہا ہے ویسے ویسے دونوں جماعتوں کے مابین الفاظ کی جنگ میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے۔
ایک دوسرے پر خوب الزمات کے نشتر برسائے جارہے ہیں ،خود کو محبِ وطن اور دوسرے کو دشمنِ وطن ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے سوشل میڈیا پر بھی دونوں جماعتوں کے حمائتی بھر پور انداز میں اپنی اپنی جماعت کا دفاع کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ،یہ ساری صورت حال دیکھ کر یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ جیسے دو جماعتوں کے درمیان الیکشن نہیں بلکہ کوئی جنگ ہونے جارہی ہے ۔قارئین ! ہمارے ملک میں انتخابات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے لیکن اصل مسئلہ عوام کے مسائل ہیں جن پر کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں ،حکومت سڑکیں اور پل بنانے میں مصروف ہے اور اپوزیشن کو دھاندلی کی فکر ستا رہی ہے۔
Votes
حکومت نے اس ملک کو ٹیکس اسٹیٹ بنا کر رکھ دیا ہے جبکہ اپوزیشن نے دھرنہ اسٹیٹ ۔اس صورت حال میں اگر چکی کے دو پاٹوں میں کوئی پِس رہاہے تو وہ ہے اس ملک کی غریب عوام یہ وہی عوام ہے جو سیاستدانوں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے ایوانوں میں اس امید پر پہنچاتی ہے کہ یہ لوگ ایوان میں بیٹھ کر ان کے بارے میں بھی کچھ سوچیں گے ،لیکن شائد عوام ہر بار یہ بات بھول جاتی ہے کہ ہمارے سیاستدا نوں کی اور سوچیں کیا کم ہیں؟ کہ اب وہ غریب عوام کی سوچ بھی اپنے اوپر مسلط کر لیں۔بحر حال بات ہورہی تھی ضمنی انتخاب کی تو اس ضمنی انتخاب کا فاتح کون ہوگا۔
اس کا فیصلہ 11اکتوبر کو ہو جائے گا ۔(یار لوگوں) کا کہنا ہے کہ 11اکتوبر کو جو جیتے گا وہ جشن منائے گا اور جو ہارے گا وہ سوگ منائے گا یا پھر دھاندلی دھاندلی کا شورمچائے گاکوئی اپنی ہار کو ایجنسیوں کی کارستانی قرار دے گا تو کوئی الیکشن کمیشن کو مورد الزام ٹھہرائے گا۔اس ضمنی الیکشن کے بعد دونوں جماعتوں کے مابین جاری سیاسی محاذ آرائی ختم ہونے کی بجائے اس میں مزید شدت آنے کا امکان ہے۔