تحریر : پروفیسر رفعت مظہر آج لاہور کے انتخابی حلقہ 120 کا معرکہ جاری ہے ۔یہ صرف ضمنی انتخاب نہیں بلکہ اِس سیٹ نے یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں نواز لیگ کہاں کھڑی ہوگی۔ کپتان بار بار یہ کہہ کراِس انتخاب کو انتہائی نازک موڑ پر لے آئے ہیں کہ حلقہ 120یہ فیصلہ کرے گا کہ عوام عدلیہ کے ساتھ ہیں یا نوازشریف کے ساتھ۔ وہ توغالباََ اِس حلقے کے ووٹرز کو ڈاکٹر یاسمین راشد کی طرف مائل کرنے کے لیے ایسے بیانات دے رہے ہیں لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ اُن کے ایسے بیانات میں کتنی زہرناکی ہے۔ عدلیہ جو میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے کر پہلے ہی متنازع ہو چکی ہے ،کپتان صاحب کے بیانات اُسے مزید متنازع بنا رہے ہیں اور اِس کا فائدہ یقیناََ نوازلیگ کو ہوگا کیونکہ ایسے بیانات سے میاں نوازشریف کے چاہنے والے مزید اشتعال میں آتے ہیں۔ ردِعمل کے طور پر وہ جوق درجوق ووٹ ڈالنے کے لیے نکلیں گے اور بیگم کلثوم نواز کی جیت کی صورت میں بقول عمران خاں یہ ثابت ہوجائے گا کہ عوام نوازشریف کے ساتھ ہیں ،عدلیہ کے ساتھ نہیں۔
ایک طرف تو کپتان گلی گلی یہ کہتے پھرتے ہیں کہ وہ عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور وقت آنے پر عدلیہ کی حمایت میں نوازشریف کی ریلی سے دَس گُنا زیادہ لوگ باہر نکال سکتے ہیں جبکہ دوسری طرف آئینی اداروں کا احترام اُنہوں نے کبھی سیکھا ہی نہیں۔ الیکشن کمیشن جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس سردار رضاخاں ہیں ،ایک آئینی ادارہ ہے جس کے سامنے پیش ہونا کپتان اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اب الیکشن کمیشن نے چیف الیکشن کمشنرکی سربراہی میں توہینِ عدالت کیس میں پیش نہ ہونے پر کپتان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے ہیں لیکن کپتان کو اِس کی پرکاہ برابر بھی پرواہ نہیں۔ لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کیسے وارنٹ جاری کر سکتا ہے؟۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن نون لیگ کی لائن پر چل رہا ہے لیکن دوسری طرف الیکشن کمیشن میںاُن کے وکیل بابر اعوان ”منتیں تَرلے” کرتے نظر آئے۔ بابر اعوان نے استدعا کی” اُنہیں تھوڑا وقت دیا جائے ۔عمران خاں الیکشن کمیشن کا احترام کرتے ہیںاور آج ہی لندن سے پاکستان پہنچے ہیں اِس لیے پیش نہیں ہو سکتے”۔ اِس کے باوجود الیکشن کمیشن نے کپتان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے کیونکہ وہ ہر پیشی کے موقعے پر کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیتے ہیں۔ بابراعوان نے تو کہہ دیا کہ کپتان الیکشن کمیشن کا بہت احترام کرتے ہیں لیکن حقیقت اِس کے برعکس کہ عمران خاں نے اِس آئینی ادارے کی تضحیک کرتے ہوئے اِس پر متعصب ہونے کا الزام لگایاجس کی بنا پر اُنہیں توہینِ عدالت کا سامنا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔
اِس سے پہلے 2013ء کے انتخابات کے بعد کپتان نے صوبائی الیکشن کمشنرز کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا اوروہ کون سا الزام ہے جو نگران حکومتوں پر نہیں لگایا ۔اُنہوں نے تو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بھی ایک جلسے میں مخاطب کرتے ہوئے بَرملا کہہ دیا ”آپ کتنے میں بِکے؟”۔ اُن کے الزامات کی بوچھاڑ سے تو شاید ہی کوئی ادارہ یا سیاسی جماعت بچی ہو ۔اِس لیے کوئی ہمیں یہ بتانے کی کوشش نہ کرے کہ کپتان کے دِل میں عدلیہ کا کتنا احترام ہے۔ البتہ یہ ضرور کہہ اُن سے پوچھنے والا کوئی نہیں ،عدلیہ نہ انتظامیہ اور نہ ہی حکمران۔ اُنہیں اور طاہرالقادری کو تو دہشت گردی کورٹ مفرور قرار دے چکی ہے لیکن کس کی مجال جواُن پر ہاتھ ڈال سکے ۔دراصل پاکستان میں آئین وقانون تو صرف مجبوروں اورمقہوروں کے لیے ہے ،زورآوروں کے لیے نہیں ۔ہماری پولیس چادر اورچاردیواری کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے کمزوروں کے گھروں کی دیواریں پھلانگ جاتی ہے لیکن کِس میں اتنی ہمت ہے جو کپتان پر ہاتھ ڈال سکے۔ تحریکِ انصاف کے نعیم الحق نے تو کھلم کھلا کہہ دیا تھا ” کپتان بنی گالہ میں بیٹھا ہے ،کسی میں ہمت ہے تو اُسے گرفتار کرکے دکھائے”۔ آخر ہمارے جج صاحبان ایسے آرڈرجاری ہی کیوں کرتے ہیں جن پر عمل درآمد نہیں کروا سکتے۔
حلقہ120 کی انتخابی مہم کے دَوران کپتان نے فرمایا ” اتوار کے بعدلاہور، ایک نیا لاہور ہوگا جو نیا پاکستان بنائے گا”۔ اللہ اللہ ! اتنی بلندی اور اتنی پستی ۔ کہاں تو کپتان 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران نئے پاکستان کے دعویدار تھے اور کہاں سُکڑ سمٹ کر ”نئے لاہور” تک آ گئے ۔ہمیں تو ڈَر ہے کہ کہیں وہ کل کلاں یہ نہ کہہ دیں کہ نیا مانگا منڈی ،نئے پاکستان کی بنیاد ہوگا۔ ویسے یہ کپتان ہی کی ہمت ہے کہ اُنہوں نے کھلے عام کہہ دیا ”’شکر ہے مجھے مرکزی حکومت نہیں ملی”۔ اُنہوں نے یہ بھی کہاکہ خیبرپختونخوا میں سوائے وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک کے سبھی ممبرانِ صوبائی اسمبلی بَس ”ایویں ای” تھے۔ اُُنہوں نے کہا ”ہمیں ایک سال تک تو پتہ ہی نہیں چلا کہ حکومت کیسے کی جاتی ہے”۔ کپتان کو بھلا پتہ چلتا بھی تو کیسے ،وہ تو کنٹینر پر سوار تھے اور اُن کا وزیرِاعلیٰ ہر روز رات کو کنٹینر پر کھڑا ہو کر ڈانس کیا کرتا تھا۔ شاید کپتان نے یہ سمجھ لیا تھا کہ جلسے جلوسوں اور میوزیکل کنسرٹ ہی سے وہ حکومت ہتھیا لیں گے۔ اگر وہ خیبرپختونخوا میں ڈیرے ڈال کر قوم کو کچھ دکھا پاتے تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔
اب عمران خاں حلقہ120کے ذریعے اپنے اقتدار کے متلاشی ہیںلیکن ہمارے نزدیک ”ایں خیال است ومحال است وجنوں”۔ یہ وہ حلقہ ہے جسے نوازشریف کا گھر قرار دیا جا سکتا ہے۔ جب 2013ء کے انتخابات میں میاں نوازشریف نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو لگ بھگ چالیس ہزار ووٹوں کے مارجن سے ہرایا تو وہ بجائے خوش ہونے کے ناراض ہو گئے کہ آخر ڈاکٹر یاسمین راشد اتنے ووٹ کیسے لے گئی؟۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ حلقہ120کے ایک ایک گھر کو ذاتی طور پر جانتے ہیں اور شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس کے مکینوں کے اُنہوں نے مسائل حل نہ کیے ہوں۔ اِس لیے یہ پتہ کرنا ضروری ہے کہ اُن کی مقبولیت میں کمی کیسے آئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اِس حلقے میں بیگم کلثوم نواز کو شکست دینا تو خیر ہے ہی ناممکن البتہ اگر ڈاکٹر یاسمین راشد ووٹوں کے درمیانی فرق میں واضح کمی لے آئیں تو اِسے بھی بیگم کلثوم نواز کی شکست ہی سمجھا جائے گا۔ ہمارے خیال میں بیگم کلثوم نواز لگ بھگ دوگنے ووٹوں کے مارجن سے کامیاب ہوں گی۔ اِسی لیے تو ہم نے اپنی ایک ”سونامی دوست” کو کہا کہ اگر بیگم صاحبہ دوگنے ووٹوں سے کامیاب ہو گئیں تو ہم اُسے ڈنر کرائیں گے۔ جس پر میری وہ دوست جَل بھُن کر کباب ہوتے ہوئے بولی کہ یہ تو ڈنر نہ کروانے کے بہانے ہیں ۔ میں نے پوچھا کیوں ؟ ۔ تو اُس نے جواب دیا کہ ووٹوں کا فرق اتنا زیادہ ہوہی نہیں سکتا۔ ہم نے اُسے جواب دینا تو مناسب نہیں سمجھا لیکن دِل میں یہ ضرور سوچا کہ اگر مارجن اتنا زیادہ ہی ہوا جتنا کہ ہمارا خیال ہے تو پھر بھی ہم اپنی سونامی دوست کو ڈنر کروانے سے تو رہے۔ اگر ہمارے صدر ِ مملکت جو کہ قوم کے باپ ہوتے ہیں ،یہ کہہ سکتے ہیں کہ” وعدے قُرآن و حدیث نہیں ہوتے ” تو ہم کیوں نہیں کہہ سکتے۔