میں برصغیر پاک و ہند کے سب سے بڑے چشمہ معرفت سے اپنی روحانی پیاس بجھا رہا تھا دنیا بھر سے آئے ہو ئے پروانوں کے اذھان و قلوب اِسی چشمہ معرفت کی ایمان و افروز شبنمی پھوار سے معطر ہو رہے تھے ذکر اذکار درود و سلام کی مشکبو سرگوشیوں سے سید علی ہجویری کا مزار اور مسجد کا صحن مہک رہا تھا لاہور شہر کی آن بان شان سید علی ہجویری کا گلشن تصوف صدیوں سے اپنی مہک اور نوری کر نوں سے اندھوں کو نور کی روشنی اور ایمانی خو شبو سے معطر کر رہاتھا اور آج بھی روز اول کی طرح اسی طرح مہک رہا تھا مستی سرور نشے کے دریا چاروں طرف بہہ رہے تھے اور دیوانے اِن ایمانی مو جوں میں غو طے لگا رہے تھے ایسی شان یقینا خدا کے انعام یا فتہ بندوں کو ہی نصیب ہوتی ہے یہ ایسی لا زوال نہ مٹنے والی شہرت صرف اسی کے حصے میں آتی ہے جو زندگی کا ہر لمحہ خدا کی رضا کے مطا بق گزارتے ہیں اور پھر خا لق کا ئنات ایسے بر گزیدہ بندوں کو شہرت کے آسمان پر قیا مت تک کے لیے امر کر دیتا ہے۔
آپ کر ہ ارض کی سینکڑوں گدیوں مزاروں کا اگر جا ئزہ لیں تو آج ان گدیوں کی آن بان اور شہرت ان کے سجا دہ نشینوں کی وجہ سے ہے جو ان کو عوام میں زندہ رکھنے کے لیے نت نئے طریقوں پر عمل کر تے ہیں لیکن جب آپ ہجویر کے اِس سید زادے کی طرف دیکھتے ہیں تو نہ گدی نشین نہ سجا دہ نشین اور نہ ہی عوام کو اشتہا رات کے ذریعے بلا یا جا تا ہے وقت گزرنے کے ساتھ بے شما ر مزار کھنڈرات میں بدل گئے گر دش لیل و نہار میں اپنا وجود قائم نہ رکھ سکے لیکن صدیوں کی رفتار اور وقت کی کروٹیں اِس سید زادے کوشہرت سے نوازتی جا رہی ہیں ایسے ہی لو گ خداکے انعام یا فتہ ہو تے ہیں جن کو لازوال شہرت خالق کا ئنات عطا کرتا ہے اِیسی زندہ جا ویدہستیاں دنیا وی ڈرامے با زیوں کی محتا ج نہیں ہو تیں بلکہ زمانہ ایسے لوگوں کا بھکا ری ہو تا ہے سلا طین اور با دشاہ گر جیسے لوگ ایسے لوگوں کے در پر دست دراز پھیلا نے آتے ہیں مٹی سے بنے یہ قد آور لوگ جو حوا دث زمانہ کا شکا ر ہو کرجب ذرات میں تبدیل ہو نے لگتے ہیں تو اپنی بقا اور حاجت کے لیے ایسی ہستیوں کے در پر ننگے پا ں سوالی بن کر آتے ہیں۔
سید علی ہجویری کو یہ لا زوال شہرت کیوں نصیب ہو ئی اِس کی وجہ آپ کا مرشد کا مل ہو نا تھا آپ نے زندگی کا ہر لمحہ خدا کی مرضی میں گزار کر یہ مقام حاصل کیا مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی اِس سچائی سے واقف ہیں کہ گرو بن گیان نہیں ملتا تصوف ایک پر خار وادی ہے جس کے پر اسرار بھیدوں میں الجھ کر سالک اپنی منزل کھو دیتا ہے اِس لیے راہ تصوف اور معرفت الہی کے سفر میں مر شد کامل کا ہو نا لازمی ہے اسلام کے نظا م تصوف میں بھی مرشد کو مر کزی حیثیت حاصل ہے اگر کسی کو صحیح مر شد کامل مل جائے تو راہ سلوک کی منزلیں آسان ہو جا تی ہیں کیونکہ مرشد ان پر اسرار راستوں سے گزرا ہو تا ہے اِس لیے وہ اپنی نگرانی میں مر ید کی درجہ بدرجہ تر قی اور راہنما ئی کرتا چلا جا تا ہے اور پھر ایسے مرید کو کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہو تی کامل مرشد کی سب سے بڑی خو بی یہ ہو تی ہے کہ وہ مرید کو بھی ویسا ہی بنا دیتا ہے۔
جیسا وہ خود ہے مرید کے اندر بھی روحا نی قوتیں بیدار ہو جا ئیں پھر مرید بھی ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلا تا چلا جا ئے اور دوسرے مریدوں کو بھی روشنی کی بھیک دے سکے مرشد کامل سے فیض یا ب ہو نے کے لیے بہت ضروری ہے کہ مرید اپنے اندر پہلے کامل یقین پیدا کر لے بے یقینی اورکمزور سوچ رکھنے والے مرید کبھی بھی اپنے مرشد سے فیض یا ب نہیں ہو سکتے روحانیت کے تمام اساتذہ کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ یقین کامل ہی مرشد کامل ہو تا ہے اِ س لیے مرشد ماننے سے پہلے اپنی تربیت بہت ضروری ہے کیونکہ اگر متلا شی کا ذہن شکوک و شبہا ت کی آما جگا ہ ہے تو پھر مرشد کامل میں بھی نقص ہی نظر آئیں گے یا کچھ بھی نظر نہیں آئے گا اور اگر سالک یقین کی دولت سے مالا مال ہے یا اس کی دما غ کی سکرین صاف ہے تو وہ خا لص ہو جا تا ہے اِسی حالت میں جب بھی اسے کامل مرشد ملتا ہے تو ایک ہی نظر میں اس میں بھی عشق حقیقی کی چنگاری سلگا دیتا ہے جو بعد میں بھا نبھر بن کر اسے کثافت سے لطا فت میں بدل دیتی ہے مو لانا روم نے کیا خوب مثال دی ہے۔
دنیا میں آپ کو بہت سارے ایسے بھی روحانیت کے دعوے دار نظر آئیں گے جو جھو ٹے ہوتے ہیں جن کا با طن برائیوں سے پاک نہیں ہو تا اِن میں سے کچھ تو نبوت کا بھی دعوی کر دیتے ہیں حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ان کو بہت سارے پیر و کار بھی مل جاتے ہیں اِس کی بھی یہی وجہ ہو تی ہے کہ جیسا مرشد اسے ویسے خیالات والے مرید بھی مل جا تے ہیں کیو نکہ ہر چیز اپنی قسم کی طرف کشش کر تی ہے اب مسئلہ یہ ہو تا ہے کہ مرشدکامل کون ہو گا جس کی روحانی قوتیں بیدار ہیں تو اکثر بزرگوں کا خیال ہے کہ جب بھی آپ کسی روحانی شخص کے پاس خلوص نیت سے جائیں تو آپ کو اس بزرگ کے پاس بیٹھ کر خاص قسم کا روحانی کیف نشہ آسودگی اوراطمینان محسوس ہو گا۔
آپ کا بیٹھے رہنے کو دل کر ے گا بار بار ان کے پاس جانے اور وقت گزارنے کو دل کر ے گا ان کی صحبت سے مسائل سلجھنے لگتے ہیں شاہراہ حیات پر خا روں کی جگہ گل بکھرنے لگتے ہیں زندگی مشکلات سے نکل کر آسانیوں کی شاہراہ پر دوڑتی محسوس ہو تی ہے لیکن یہ تب ہو گا جب آپ اچھی طرح کسی بزرگ کو چیک کر یں اس کے شب و روز لوگوں سے برتا کو دیکھ لیں اچھی طرح دیکھنے کے بعد اگر کسی کو مرشد مانیں تو پھر دل سے مانیں مر شد کا مل کی اہمیت کا اندازہ امام غزالی کے قول سے لگا یا جا سکتاہے جنہوں نے قرآن فہمی میں کو ئی کسر نہ چھو ڑی قرآن حدیث منطق فلسفہ علم الکلام الغرض دنیا کے تمام علوم کو اپنے اندر سمو لیا آپ جامعہ نظا میہ بغداد شریف کے رئیس الجا معہ تھے ساری دنیا سے تشنگان علم اپنی روحانی پیاس بجھا نے کے لیے آپ کے قدموں میں حا ضری دیتے اورآپ کے علم کے سمندر سے سیراب ہو کر دنیا جہاں میں پھیل جاتے وہی امام غزالی فرما تے ہیں قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میر ی جان ہے علم اور فن کی دنیا کا میں شہسوار تھا لیکن حق کا طالب پھر بھی تھا پیا س اب بھی با قی تھی اِس پیا س کے لیے میں دربد بھٹکا لیکن پیا س نہ بجھی بالآ خر میں صوفیا کرام کی با رگا ہ میں حاضر ہوا دوسال علم تصوف پڑھا اور اس نتیجے پرپہنچاکہ علم تصوف علم نہیں عمل کا نام ہے حق اِسی دربارسے ملتا ہے جس کے لیے مرشد کامل کا ہونا ضروری ہے۔