تحریر : عماد ظفر ٹکاٹک لاہور کی مشہور سوغات ہے اور اگر آپ نے ٹکا ٹک نہیں کھائے تو یقینا آپ نے لاہور نہیں دیکھا. گردوں اور کپوروں کو فرائی کر کے یہ ڈش تیار کی جاتی ہے اور گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے دوکاندار ٹوکے نما اوزار سے ان کو پیستے ہیں جس سے ٹکا ٹک کا شور بلند ہوتا ہے. اس ڈش کا ذکر یوں یاد آیا کہ کھانے والے ٹکا ٹک کے علاوہ کچھ گردے اور کپوروں کی مختلف اقسام ہمارے معاشرے میں بھی پائی جاتی ہیں. یہ قسم ان افراد پر مشتمل ہوتی ہے جو ہر دہشت گردی یا برے سانحے کے بعد میڈیا سوشل میڈیا یا محفلوں میں بیٹھ کر الفاظ کے ٹوکوں سے ٹکا ٹک کا شور پیدا کرتے ہیں اور فوج حکومت سیاستدانوں دوسرے فرقے یا پھر مذہب کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیتے ہیں. یہ کپورے اور گردے نما حضرات نرگسیت کی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے بجائے پالیسیوں پر تنقید کرنے کے، شخصیات پر تنقید شروع کر دیتے ہیں. فوج کے خلاف بات کرنا ان کپوروں کو فیشن ایبل بھی لگتا ہے اور ایسا کرنا انہیں باغی ہونے کی خوش فہمی میں بھی مبتلا کر دیتا ہے. اسی طرح لبرل کہلوانے کے شوق میں کچھ کپورے اور گردے مذہب کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں اور عقائد کا تمسخر اڑا کر اپنے آپ کو پھنے خان سمجھ بیٹھتے ہیں.ایک قسم ان کپوروں کی بھی ہوتی ہے جو اپنے اپنے مسلک اور فرقے کی آڑ میں چھپ کر ایسے سانحات کو ایک دوسرے کے فرقے اور مسلک کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ہمہ وقت مصروف پائے جاتے ہیں۔
دانشور اور الیکٹرانک میڈیا کے گردے کپورے دھماکوں یا کسی ناگہانی آفت کے فورا بعد سکرینوں پر آ کر گلے پھاڑ پھاڑ کر دہائیاں دینا شروع کر دیتے ہیں .اس طرح کے تبصرے اور تجزیے کیئے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ. کچھ کپورے دہماکوں کی وجہ کرپشن کو قرار دیتے ہیں کچھ گردے حکمرانوں کو مورد الزام ٹھہراتے پیں اور کچھ فوج کو. طنز و تنقید بلکہ جگتوں کے ایسے نشتر چلائے جاتے ہیں کہ بھانڈ بھی شرما کر رہ جاتے ہیں. لیکن ٹی وی اینکرز اور تجزیہ نگار نما گردے کپورے البتہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ بس ان کے پروگرام دیکھنے کے بعد دہشت گرد جگتوں اور تنقید سے گھبرا کر ہتھیار ڈال دیں گے۔
اسی طرح ایک قسم لکھاری کپوروں کی ہوتی ہے جو ہر ایسے سانحے کے بعد اخبارات یا آن لائن سائٹس پر آہ و بپا مچا دیتے ہیں.درد اور یاس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور اپنی ریاست اور اس کے اداروں بالخصوص افواج کو تحاریر میں محلے کی فسادی مائیوں کی طرح طعنے دیکر یہ گردے کپورے نہ صرف خوش ہو جاتے ہیں بلکہ یہ بھی سمجھ بیٹھتے ہیں کہ دہشت گرد ان کی تحاریر پڑھ کر شرم سے ڈوب مریں گے. ایک قسم ان گردوں اور کپوروں کی بھی ہے جو سوشل میڈیا یا محفلوں میں ایسے سانحات کے برپا ہونے کے فورا بعد جالب اور فیض کی شاعری شروع کر دیتے ہیں اور صدق دل سے اپنے آپ کو آج کے دور کا جالب اور فیض سمجھتے ہیں.البتہ ریاستی اداروں کے چھاپوں کے دوران یہ گردے کپورے فورا روپوش ہونے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں.ان کو بھی یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کی جگتوں یا شعر و شاعری سے دہشت گردوں کو بھاری نقصان پہنچے گا. ایک قسم ان گردوں اور کپووروں کی بھی ہوتی ہے جو لبرل ازم سیکیولرزم یا انسانی حقوق کی آڑ میں مزہب اور عقائد کا مزاق اڑانا فرض سمجھتے ہیں۔
Lahore Blast
جونہی دھماکہ یا سانحہ ہو یہ حضرات مذہب کو بنیادی وجہ قرار دیتے ہوئے الفاظوں کے ٹولے لیئے ٹکا ٹک شروع کر دیتے ہیں اور مذہب کا تمسخر اڑا کر صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے دہشت گرد خود ہی اپنی موت آپ مر جائیں گے. ایک قسم ان گردوں کپوروں کی ہوتی ہے جو ایسے سانحات کے بعد یا معمول میں بھی ریاستی اداروں اور حکمرانوں کے بوٹ پالش کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں.پاک فوج کو سلام یا عمران خان نواز شریف اور زرداری زندہ باد کے نعرے مارنے کے بعد یہ قسم ایمان کامل رکھتی ہے کہ بوٹ پالش کرنے اور نعرے مارنے کے بعد دہشت گرد ڈر کر بھاگ جائیں گے اور دوبارہ کبھی وطن عزیز کا رخ نہیں کریں گے. آخری قسم ان گردوں اور کپوروں کی ہے جو اپنے اپنے مسلک اور فرقے کی ٹوپی پہن کر ان دھماکوں اور سانحات کا جرم ایک دوسرے کے فرقوں پر ڈالنا پسند کرتے ہیں اور یہ سوال کرتے پائے جاتے ہیں کہ دوسرے فرقے کو دہشت گرد نشانہ کیوں نہیں بناتے یا نائٹ کلبوں اور ڈسکو کو کیوں نشانہ نہیں بنایا جاتا .گویا ایک طرح سے اس قسم کے گردے کپورے دہشت گردوں سے اپیل کر رہے ہوتے ہیں کہ اگلی باری دوسرے مسلک یا فرقے یا پھر کسی نائٹ کلب کو اڑا کر اس قسم کے کپوروں کی انا کی تسکین کی جائے۔
ان مختلف اقسام کے گردوں اور کپوروں کے ٹکا ٹک کے شور میں متوجہ ہونے والے صاحبان کو چائیے کہ کسی روز ٹھنڈے دل سے بیٹھ کر اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا دہشت گرد اور دہشت گردی کو یہ گردے کپورے اپنی اپنی آہ و بجای اور ایجنڈے سے ختم کر سکتے ہیں جس کا جواب نفی میں ہے. دہشت گردوں کو جہنم واصل وہی افواج اور پولیس کرتی ہے جس پر یہ گردے کپورے ہمہ وقت تنقید کرتے نظر آتے ہیں.اور دہشت گردوں یا دہشت گردی کے خاتمے کی پالیسی اور اس پر عملدارآمد وہی حکمران اور سیاستدان کرواتے ہیں جن پر ہمارے گردے اور کپورے حضرات جگتیں مار مار نہیں تھکتے۔
ویسے بھی سیاستدانوں اور افواج پر تنقید کرنا آسان ترین کام ہے. اور حقیقت سے فرار کا آسان راستہ بھی ہے.اپنے اپنے فرقے اور نظریات کی آڑ میں شدت پسندی اور نفرتوں کا زہر پھیلاتے افراد دہشت گردوں کے نظریاتی سہولت کار ہیں.گردوں کپوروں کی مصنوعی ٹکا ٹک سے نہ تو دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے اور نہ ہی دہشت گرد. اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ریاست پر بھروسہ رکھئے یہ دہشت گردوں کا سر ضرور کچلیں گے.البتہ گردوں کپوروں کی ٹکا ٹک سے پرہیز لازم ہے۔