تحریر: سید انور محمود نوٹ:دوستوں یہ مضمون عام مضمونوں سے زرا ہٹ کرہے، اس میں لاہور کی محبت کا اظہار ایک بڑئے ادیب کی لاہور سے محبت کے ذکر سے کیا ہے۔ لاہور کا قذافی اسٹیڈیم ہمارا قومی اثاثہ ہے، اس کا پورا ذکر اور مفید معلومات سب اور پھر آخر میں پی ایس ایل کا فائنل اور دہشتگردی کا ذکر ہے، امید ہے آپ کو یہ مضمون پسند آیئگا، اگر ممکن ہو تو تبصرہ کیجیے گا۔۔۔
لاہور سے محبت:۔ کرشن چندر اردو ادب سے جڑا ہوا ایک بڑا نام، پیدا ہوئے تو ہندو تھے، لیکن مرتے وقت مسلمان تھے۔ آخری عمر میں سلمیٰ صدیقی کے ساتھ نکاح سے پیشتر مسلمان ہوگے تھے اور اپنا نام وقار ملک تجویز کیا تھا۔سلمیٰ صدیقی سے بہت محبت تھی، لیکن سلمیٰ صدیقی کی محبت پر حاوی ہونے والی ان کے دل ودماغ پر راج کرنے والی چاہت اور دیوانگی شہر لاہور تھا، جہاں وہ پیدا ہوئے تھے،لاہور کرشن چندر کو بہت عزیز تھا، ان کی زندگی کئی شہروں میں بسر ہوئی لیکن لاہور کے ساتھ ان کی محبت کبھی کم نہ ہوسکی۔۔۔ وہ لاہور سے محبت کرتے تھے اور زندگی کے آخری دنوں میں ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ کسی طرح ایک بار پھر لاہور چلے جائیں۔کرشن چندر کو نہ دلّی بھایا اور نہ ہی لکھنؤ نے ان کے پاؤں پکڑے بلکہ وہ ان دونوں شہروں کو لاہور کے مقابلے میں حقیر جانتے رہے۔لاہور سے ان کی ایسی محبت تھی جس کے لئے وہ بہت تڑپتے تھے۔۔۔ لاہور میرا لاہور کیسا ہے۔۔۔
جب وہ لاہور اور لاہور کے لوگوں کی تعریف سنتے تو ان کا چہرہ کھل جاتا، آنکھیں چمکنے لگتیں، لاہو رکی تعریف ان کی تعریف تھی۔لاہور میری کمزوری ہی نہیں۔۔۔ میں نے تو لاہور میں مرنے کا خواب دیکھا ہے کسی کونے میں، کسی چھوٹے سے گندے سے غلیظ چوک کے کنارے۔ لاہور سے جدائی کی جوکسک کرشن چندر کو سانس نہ لینے دیتی تھی اس کا سلسلہ ان اہم ادیبوں سے جڑتا ہے جن کے قلوب میں ابھی تک ایک دلّی، ایک لکھنؤ آباد ہے۔۔۔ کہ اپنی جنم بھومی جیسی کیسی بھی ہو ایک جنت گم گشتہ کی صورت میں تمہیں اپنے فریب میں جکڑے رکھتی ہے۔ ’’لاہور میں رہ کر کوئی بوڑھا نہیں ہو سکتا، وہ میرا سدا بہار جگمگاتا ہوا فانوس بدن شہر۔۔۔ اپنی لافانی جوانی کے لئے مشہور ہے، اس شہر کو چھوڑ دے اور منڈی بہاؤالدین او رچک نمبر چار سو بیس میں جاکر سکونت اختیار کرلے مگر لاہور کے نام کو بٹہ نہ لگائے‘‘۔(حوالہ:۔’’ کرشن چندرکا واحد محبوب ۔۔۔لاہور‘‘۔۔۔ تحریر: مستنصرحسین تارڑ)۔
لاہور کا قذافی اسٹیڈیم: ۔ قذافی اسٹیڈیم پاکستان میں واقع سب سے بڑا کھیل کا میدان ہے۔ یہاں کرکٹ کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ قذافی اسٹیڈیم میں پاکستانی کرکٹ ٹیم اور لاہور کی مقامی کرکٹ ٹیمیں کھیلتی ہیں۔یہ اسٹیڈیم 1959 میں تعمیر ہوا تھا۔ اس اسٹیڈیم پر پہلا کرکٹ ٹیسٹ میچ پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیموں کے مابین 1959 میں 21 سے 26 نومبر کے دوران کھیلا گیا ۔ اور اس میں 60 ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جس کی بدولت یہ ملک کا سب سے بڑا کھیل کا اسٹیڈیم ہے۔ قذافی اسٹیڈیم کا اصل نام لاہور اسٹیڈیم رکھا گیا تھا۔24 فروری 1974 کولاہور میں دوسری اسلامی سربراہ کا نفرنس ہوئی،کانفرنس میں لیبیا کے صدر کرنل معمر القذافی نے بھی شرکت کی، کانفرنس ختم ہونے کے بعد لاہور اسٹیڈیم میں معمر القذافی نے ایک جلسہ عام میں پاکستان کے نیوکلیائی ہتھیاروں کے حق میں خطاب کیا، اس خطاب میں ہی معمر القذافی نے بھارت کو کافر ملک کہا تھا، جس پر بھارت نے باقاعدہ طور پر لیبیا سے احتجاج بھی کیا تھا۔ اسی تاریخی جلسہ عام میں پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کی بھرپور حمایت اور تالیوں کی گونج میں لاہور اسٹیڈیم کا نام بدل کر ’’قذافی اسٹیڈیم‘‘ رکھا۔ قذافی اسٹیڈیم کو بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو نے 1995-1996 میں کرکٹ عالمی کپ کے لیے دوبارہ مرمت کروایا۔ 1996کے عالمی کرکٹ کپ کا فائنل اسی اسٹیڈیم میں سری لنکا اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا ۔ فاتح ٹیم سری لنکا کے کپتان ارجنا رانا تنگے نےاسوقت کی وزیراعظم بینظیربھٹو سےٹرافی وصول کی تھی۔
PSL
مارچ 2009 میں پاکستان اورسری لنکا کےدرمیان ایک ٹیسٹ میچ قذافی اسٹیڈیم میں جاری تھا کہ 3 مارچ کوسری لنکن کرکٹ ٹیم کی بس پر حملہ ہوا ۔اس حملے میں چند سری لنکن کرکٹر زخمی ہوئے تھے لیکن اُن کی جانیں بچ گئی تھیں۔ سری لنکا کی ٹیم کو اس دہشت گردی کے بعدمیچ کو ختم کرکے تمام سری لنکن کرکٹرز کو فوجی ہیلی کاپٹر میں قذافی اسٹیڈیم سے روانہ کیا گیا اور پھر ان کو سری لنکا روانہ کردیا گیا، ادھر سری لنکن کھلاڑی روانہ ہوئے اور ساتھ ہی پاکستان سے انٹرنیشنل کرکٹ ختم ہوگئی۔ 22 مئی 2015 کو ایک بار پھرقذافی اسٹیڈیم میں پورا لاہور موجود تھا ، پاکستان اور زمبابوے کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچ کھیلا گیا۔ لاہوریوں کا جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ پاکستان میں چھ سال بعد پھر انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوئی تھی۔
میں نے اپنے مضمون ’’فائنل پاکستان اور دہشتگردوں کے درمیان‘‘ میں لکھا تھا کہ’’حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس چیلنج کو قبول کرئے اور ابھی سے واضع طور پر اعلان کرئے کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہورمیں ہی ہوگا، اب یہ فائنل ثانوی طور پر تو وہی دو ٹیمیں کھیل رہی ہونگی جو دوسرئے ایڈیشن میں شامل ہیں لیکن حقیقت میں یہ فائنل پاکستان اور دہشتگردوں کے درمیان ہوگا‘‘۔ 20 فروری 2016 کو پاکستان سپر لیگ کے سربراہ نجم سیٹھی نے اس بات کا اعلان کیا کہ فائنل لاہور میں ہی ہوگا اورتمام وی آئی پی کو دیکھنے کی دعوت دی جائے گی۔ اگرچہ یہ اعلان پی ایس ایل کے دبئی میں دوسرئے ایڈیشن کے شروع سے پہلے ہی ہوچکا تھا ،لیکن تیرہ فروری کو لاہور میں ہونے والی دہشتگردی کے بعد صورتحال بدل گئی تھی اور نجم سیٹھی بھی کوئی فائنل اعلان کرنے سے قاصر نظر آئے اور فیصلہ 22 فروری تک ملتوی کردیا گیا تھا۔ 16 فروری کی شام کو لال شہباز قلندرکی درگاہ پر لاہور سے بڑی دہشتگردی ہوئی اور 88 لوگ جان کی بازی ہار گئے، اس صورتحال میں جبکہ لوگ مایوس اور پریشان تھے، 20 جولائی کو پی ایس ایل کے سربراہ نجم سیٹھی کا یہ اعلان کہ فائنل لاہور میں ہوگا دہشتگردوں کے خلاف اعلان جنگ ہے، دہشتگردوں نے اس اعلان جنگ کا جواب اگلے روز 21 فروری کوچارسدہ کی تحصیل تنگی کی کچہری پرحملہ کرکے دیا ہے، دہشتگردوں کی تعداد تین تھی، تینوں دہشتگر مارئے گئے، لیکن اس حملےمیں 8افراد جاں بحق ہوئے اور 25 افراد زخمی ہوئے۔
لاہور میں پانچ مارچ کوہونے والے پی ایس ایل فائنل کے بارئے میں آخری خبریں یہ ہیں کہ پاکستان سپر لیگ کے سربراہ نجم سیٹھی تو اس بات کا اعلان کرچکے ہیں کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہوگا، تاہم ابھی وزیراعلیٰ پنجاب لاہور فائنل کی حتمی منظوری دینگے جو شاید ایک رسمی کارروائی ہوگی۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ تو پہلے ہی لاہور میں ہونے والے فائنل کے انعقاد میں فوج کی جانب سے ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کراچکے ہیں، جس کی وجہ سے یہ امید ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف ہم سرخروں ہونگے۔دوسری جانب کرکٹرز کی ایسوسی ایشنز کی فیڈریشن فیکا نے ایک بار پھر لاہور میں فائنل کے انعقاد کو سکیورٹی کا خطرہ قرار دے دیا ہے، لیکن پاکستان کے عوام کو اپنے اور اپنے سکیورٹی اداروں پر اعتماد ہے۔ پانچ مارچ کو اہل لاہور دہشتگردوں کے مدمقابل ہونگے، اس لیے ان کو چاہیے کہ ابھی سے اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیں اور کسی بھی شخص کی مشکوک حرکتوں کا احساس ہوتو فوراً سیکوریٹی اداروں کو اس کی اطلاع کریں لیکن خدارا آپس کی دشمنیاں مت نکالیے گا، دوسرئے انتظامیہ کے احکامات پر سختی سےعمل کیجیے گا۔ حکمرانوں اورسیاسی رہنماوں کوچاہیے کہ وہ دہشتگردوں کے اس چیلنج کو قبول کریں اور اس میچ کو اسٹیڈیم میں جاکر دیکھیں، اس سےعام لوگوں میں ایک اچھا پیغام جائے گا اور ایک کثیر تعداد میں لوگ فائنل دیکھنے آینگے جو دشتگردوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہوگا۔ دہشتگردی مردہ باد۔۔ پاکستان زندہ باد