تحریر : محمد اسد سلیم ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں کوئی ایسٹر کا تہوار منا رہا تو کوئی اتوار کی چھٹی سے لطف اندوز ہورہا ۔ پھولوں کی خوشبو فضا کو مزید خوشگوار بنا رہی تھی۔پھولوں جیسے بچے آنے والے پل سے بےخبر ہو کر کھیل کود میں مصروف تھے ۔یہ منظر تھا لاہور کے گلشن اقبال پارک کا مگر پھر یوں ہوا ایک درندہ صفت انسان گیٹ نمبر ایک سے اپنے ناپاک عظاعم کے ساتھ پارک میں داخل ہوا۔
میرے خیال میں اسے درندہ کہنا. درنگی کی اور انسان کہنا انسانیت کی توہین کے زمرے میں آئے گا ۔یہ درندہ عوام کے بیچ میں پہنچا اور اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا ۔یہ وہی جگا ہے جہاں پھول اپنی مہک سے فضا کو خوشگوار کرتے تھے ،پرندہ چہچہاتے تھے تتلیاں فضاں میں رنگ بکھیرتی تھی اور ننھے فرشتے یعنی معصوم بچے کھیلا کرتے تھے مگر منظر بدلتے ہوئے دیر نہ لگی اس زور دھماکے کے بعد سب دھرم بھرم ہوگیا فضا میں زخمی بچوں، اور مردوں کو چیخوں پکار پھیل گئ کیسا عجیب منظر تھا وہ کہ اقبال کے نام منسوب اس پارک میں اقبال کے شاہین ڈھیر ہوئے پرے تھے۔
Gulshan-e-Iqbal Park-Blast
لوگ فوری طور پر مدد کے لئے دوڑے ، رکشوں ،گاڑیوں ،ایمبولینسس میں فوری طور پر زخمیوں کو ہسپتال پہچانے کا عمل شروع کردیا گیا تھا ،قیامت صغریٰ کا سا منظر تھا ایسا محسوس ہوتا تھا کے کہ ان وحشیوں نے پورے شہر کو لہو لہو کردیا ہو….کسی ماں کا لخت جگر اس سے چھین لیا گیا تو کسی باپ کی گڑیا اسے چھوڑ کر چلی کسی کا بھائی بچھر گیا تو کہی زنگدگی کے ساتھی ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ گئے ،ہسپتالوں میں قیامت کا منظر تھا جوک در جوک زخمیوں اور لاشوں کو وہاں لایا جارہا تھا۔
زخمیوں کو خون کی ضرورت پڑی تو لوگ سینکروں کی تعداد میں خون کا عطیہ دینے کے لئے ہسپتالوں کے بلڈ بینک کے باہر امد آئے۔ خون عطیہ کرنے والے لوگوں کے جزبہ کو دیکھ کت مجھے یہ احساس گیا کے خون دینے والوں کا جذبہ خون لینے والوں کے جزبے سے بہت زیادہ ہے۔
Lahore Attack
اس قوم نے ثابت کیا کے ایک زندہ دل قوم ہے۔جائے وقوعہ کی ایک تصویر کل سوشل میڈیا پر بہت گردش کر رہی تھی جس ساری قوم کو مزید افسردہ کر دیا ، یہ تصویر حادثے کی جگہ پر اس لاوارث موبائل فون کی تھی جس موبائل پر ایک فون آ راہا تھا اور اور اس پر لکھا ہوا تھا “”امی جی۔مگر اس ممتا کو کیا خبر تھی کی جس بٹیاں کو وہ فون کر رہی تھی ۔انسانیت کے دشمن حیوانوں نے اسے خون کی ہولی میں نہلا دیا تھا اور وہ جس بٹیاں کے لئے فکر مند ہے خون میں لٹ پٹ وہاں پڑی ہے اور شاید اور شائد ماں کو ہی یاد کر رہی ہے۔
افسوس کچھ باقی نہ رہا باقی رہی توصرف آ ہو پکار اورسسکیاں ایک محطاط اندازہ کے مطابق اس دھماکے میں 72 افرادجابحق اور 300 سے ذائد افراد زخمی ہے۔ حملہ آور کی شناخت یوسف کے نام سے ہوئی ہے جس کا تعلق مظفرآباد سے ہے۔
دھماکے کی ذمہ داری تو کلعدم تحریک طالبان جماعت الحرار نے قبول کر لی ہے ۔۔خیر جو بھی ہےیہ دہشتگرد اپنی بزدلانہ کاروائیوں سے اس قوم کے دہشتگردی کے خلاف عزم کو متنرلزل نہیں کر سکتے سکتے۔۔ میں ہسپتالوں میں موجود سسکتے بچوں کو ان کی مائوں کی حالت دیکھ کر دل سے یہی صدا نکلتی ہے ۔۔۔۔میرے مولا کرم ہو کرم تجھ سے فریاد کرتے ہے ہم۔۔