لاہور (جیوڈیسک) لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو کام سے روک دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر نئی جے آئی ٹی کے خلاف درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنایا۔
عدالت نے نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کے خلاف درخواستیں سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کیا۔
بینچ کے دو ارکان جسٹس ملک شہزاد احمد خان اور جسٹس عالیہ نیلم نے نئی جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن معطل کرنے کے حق میں فیصلہ دیا جب کہ بینچ کے سربراہ جسٹس قاسم خان نے ان کے فیصلے سے اختلاف کیا۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس اپنے لاء آفیسرز کے ساتھ پیش ہوئے اور نشاندہی کی کہ فل بینچ نے ایڈووکیٹ جنرل آفس کو نوٹس نہیں کیا اور ان کا مؤقف بھی نہیں سنا۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالتی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ اس طرح کیا جا رہا ہے، جس پر جسٹس شہزاد احمد خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اونچی آواز میں بات کرکے عدالت پر دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا اور ایسا کرنے پرآپ کو بھی نوٹس جاری کیا جاسکتا ہے۔
اس کے جواب میں ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اونچی آواز میں اس لیے بول رہا ہوں کہ بات بینچ تک پہنچ جائے، اگر نوٹس جاری کرنا ہے تو کردیا جائے۔
انہوں نے کہاکہ 31 جنوری کو آخری بار سماعت ہوئی، اب ان درخواستوں پر بینچ بن گیا اور ایڈووکیٹ جنرل آفس کو سنا نہیں گیا، جس پر انہوں نے بینچ پر عدم اعتماد کرتے ہوئے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔
بینچ کے سربراہ جسٹس قاسم خان نے ایڈوکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس اپنے مؤقف کیلئے درخواست دینے اور اعتراضات اٹھانے کا قانونی راستہ موجود ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ سال دسمبر میں حکومت پنجاب کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا تھا جس کے بعد نئی جے آئی ٹی بنائی گئی تھی۔
واضح رہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کرنے والی نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی آئی جی موٹروے پولیس اے ڈی خواجہ کررہے ہیں جو سندھ پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دے چکے ہیں۔
نئی جے آئی ٹی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کا بیان ریکارڈ کیا تھا جب کہ شہباز شریف بھی اپنا بیان ریکارڈ کراچکے ہیں۔
17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے آپریشن کیا گیا۔
پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت اور پولیس آپریشن کے نتیجے میں 14 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں خواتین بھی شامل تھیں جبکہ پولیس کی فائرنگ سے درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے واقعے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی گئی جس کی رپورٹ بھی منظرعام پر آچکی ہے۔