لاہور (جیوڈیسک) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سردار شمیم نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیا۔
ساہیوال واقعے کی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق درخواستوں پر چیف جسٹس سردار شمیم خان کی سربراہی میں بینچ سماعت کررہا ہے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس سردار شمیم نے استفسار کیا کہ ‘اب تک کیا کارروائی کی گئی ہے’، عدالت نے لسٹ دی اور حکم دیا تھا کہ سب کو فون کر کے طلب کریں اور بیان ریکارڈ کریں لیکن افسوس کی بات ہے عدالتی حکم پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ایڈیشنل آئی جی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ‘کیوں نہ آپ کو عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر نوٹس کردیں’۔
جسٹس صداقت علی خان نے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سے استفسار کیا ‘کیا آپ کبھی دفتر سے باہر بھی نکلتے ہیں’۔
اس موقع پر استغاثہ کے وکیل احتشام نے استدعا کی کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیں۔
عدالت نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا اور چیف جسٹس سردار شمیم نے کہا سیشن جج ساہیوال انکوائری کے لیے مجسٹریٹ تعینات کریں۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا جو لوگ بیان ریکارڈ کرانا چاہیں وہ جےآئی ٹی کو بیان ریکارڈ کرائیں۔
یاد رہے کہ حکومت پنجاب نے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کرنے والی جےآئی ٹی کو 19 فروری تک رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے جب کہ پنجاب فارنزک لیبارٹری مں سی ٹی ڈی اہلکاروں کے زیر استعمال بھیجے گئے ہتھیاروں میں رد و بدل کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
گزشتہ ماہ 19 جنوری کی سہہ پہر پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک مشکوک مقابلے کے دوران گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کردی تھی، جس کے نتیجے میں ایک عام شہری خلیل، اس کی اہلیہ اور 13 سالہ بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق اور تین بچے زخمی ہوئے جبکہ 3 مبینہ دہشت گردوں کے فرار ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔
واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات دیئے گئے، واقعے کو پہلے بچوں کی بازیابی سے تعبیر کیا گیا، تاہم بعدازاں ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مارے جانے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔
میڈیا پر معاملہ آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیا، دوسری جانب واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی، جس کی رپورٹ میں مقتول خلیل اور اس کے خاندان کو بے گناہ قرار دے کر سی ٹی ڈی اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔
جے آئی ٹی نے عدالت سے مکمل انکوائری رپورٹ جمع کرانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت لے رکھی ہے۔