> گزشتہ روز ایک اور > مسیح تعصب کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اور > اسے مارنے والے کوئ اور نہی بلکہ > ہمارے معاشرے کے > نام نہاد مسیحا تھے۔تفصیلات کے > مطابق گزشتہ دنوں ایک مسیحی خاتون > کرن جو کہ حاملہ > تھی اپنی چھوٹی بہن مہوش کے ساتھ > اپنے چیک اپ کے لئے سروسسز ہسپتال > لاہور پہنچی۔ > لیڈی ڈاکٹر نے ایک نرس سے چیک اپ کے > لئے کہا تو کرن نے ڈاکٹر سے کہا کہ > کچھ مسائیل > ہیں آپ خود چیک اپ کریں جس پر ڈاکٹر > نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئ فائل > حاملہ کرن کے > پیٹ پر مارتے ہوکہا کہ فیصلہ میں > کرونگی کے تم کو کون چیک کرے گا۔ > چھوٹی بہن مہوش > نے ڈاکٹر سے احتجاج کیا تو ڈاکٹر > نے اسے تھپڑ مار دیا جس سے شورشروع > ہوگیا۔ مضید > ڈاکٹرز اکٹھے ہوگئے اور دونوں > بہنوں کو لیبر روم میں بند کردیا۔ > ان دونوں کے بھائ > سنیل سلیم اور انیل سلیم کرن کے > شوہر کاشف شفیق کے ہمرا کھانہ دینے > پہنچے تو بہنوں > کی حالت دیکھ کر احتجاج شروع کر > دیا۔ اس کے ساتھ ہی وہاں چار > ڈاکٹرز اور سیکیورٹی > گارڈز نے ان تینوں کو گھیر لیا اور > مارنا شروع کر دیا ڈاکٹرز ان کو > مارتے تھے اور > کہتے تھے کہ تم عیسائ چوڑے ہو اور > ہمیں آنکھ دکھاتے ہو۔ ۔انیل سلیم > کو ڈاکٹرز اور > سیکیورٹی گارڈز نے گائنی وارڈ کے > عملے کی مدد سے ایک کمرے میں بند کر > کے لاتوں ، گھونسوں اور > ڈنڈوں سے بری طرح سے > مارنا شروع کر دیا جس سے اس کے > جسم کے نازک حصوں کو > شدید زخم آئے اور بہت > سے ہڈیاں ٹوٹ گئ۔ مگر کسی کو بھی اس > پر رحم نہ آیا بہنیں منتیں کرتی > رہی مگر وہ > مارتے جا رہے تھے۔ اور پھر انیل > جان کی بازی ہار گیا۔ ایک نجی ٹی وی > پر انیل مسیح > کے باپ نے بتایا کہ انیل تو اسی وقت > مرچکا تھا ڈاکٹرز صرف ڈرامہ کر کے > اسے کئ > گھنٹے ہسپتال میں رکھ کر اپنا کیس > مضبوط کرنا چاہتے تھے کہ وہ اسے > بچانے کی کوشش کرتے > رہے ہیں۔ پولیس نے مقدمہ قائم کیا > تو ڈاکٹرز نے دھمکی دے دی ہے کہ اگر > کسی ڈاکٹر > کو بھی اس کیس میں ملوث کیا گیا تو > تمام پنجاب میں ڈاکٹرز ہڑتال پر > چلیں جائیں گے۔ > اس کے ساتھ ہی ایک سنئیر ڈاکٹر نے > میڈیا پر بیان دیا ہے کہ انیل کی > موت دم گھُٹنے > سے ہوئ ہے۔ انیل مسیح تین ماہ کی > بیٹی سمیت چار کم سن بچوں کا باپ > تھا۔ مسیحیوں کے > خلاف امتیازی سلوک اور اس طرح کے > واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔اس > واقعہ نے ایک > خاندان کی زندگی برباد کر دی ہے > کوئ پوچھنے والا نہی ہے۔ اگر نقیب > کا لہو پکار > سکتا ہے تو انیل کے خون کی چیخوں پر > غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس واقعہ کو > دیکھ کر > مجھے 1982 یا شاید 83 میں > اس سے ملتا جلتا > ایک معروف واقعہ یاد آگیا جس میں > میرے چند دوستوں کی زندگی کئ سال > تک اجیرن بن گئ > تھی۔ میں ان حالات سے بال بال بچا > تھا۔ میرے بچپن کے ایک دوست کی بڑی > بہن جو کہ > اپنے پہلے بچے کی ماں بننے والی > تھی اسے کراچی میں ایک ہسپتال لایا > گیا وہ داخل > ہوگئ۔ اسی رات کو اس نے ایک بیٹے جو > جنم دیا سارا خاندان خوش تھا۔ > پرایویٹ روم تھا > خاندان کے لوگوں کا ہسپتال میں آنا > جانا لگا ہوا تھا۔ اسی رات کو اس کا > چھوٹا دیور > زیب (فرضی) اپنی بھابی کو ملنے > ہسپتال پہنچا تو اس کا ہسپتال کی > سیکیورٹی سے جھگڑہ > ہوگیا۔ انہوں نے اسے مارا۔ یہ واپس > گھر آیا کہ اپنے چند دوستوں کو > لیکر واپس > ہسپتال جائے گا۔ یہ کراچی کا پُر > امن دور تھا زیادہ لوگ گھروں کے > باہر سویا کرتے > تھے۔ میں اور میرے چند دوست بھی > باہر سوتے تھے۔ یہ ہماری جوانی کے > عروج کے دن تھے > ہماری بھی ایک گینگ ہوا کرتی تھی > جوانی دیوانی ہوتی ہے اور ہم بھی > لڑائ جھگڑے کے > لئے تیار رہتے تھے۔ رات شائد ایک > بجے میں > نے موٹر سائکل کی آواز سنی تو موٹر > سائیکل پر زیب تھا جس نے میرے ایک > دوست الف کو > اٹھایا اور کہا کہ جھگڑا ہو گیا ہے > ابھی چلنا ہے۔ میرے دوست الف نے > مجھے اٹھایا > میں جاگ رہا تھا مگر میں نے جانے سے > انکار کر دیا۔ میرے انکار کے پیچھے > ایک اور کہانی > تھی کہ اس واقعہ سے کچھ عرصہ قبل > میں امتحان دیکر آرہا تھا کہ اچانک > زیب میرے پاس آیا کہ > ہمارے ایک بچپن کے دوست( گ) > کو علامہ اقبال کراچی میں چند > لڑکوں نے گھیرا ہوا ہے ہم دونوں (گ) > کی مدد کے > لئے کراچی ائیرپورٹ کے > نزدیک واقع کالج > پہنچے تو وہاں کوئ چالیس پچاس لڑکے > میرے دوست (گ) کو دھو رہے تھے۔ ان > لڑکوں نے > مجھے بھی دیکھا اور گھیر لیا مگر > زیب ہم > دونوں کو چھوڑ کر موٹر سائیکل سمیت > فرار گیا پھر جو ہوا وہ ایک الگ > کہانی ہے بعد > میں ہم نے بھی بدلہ تو لے لیا تھا۔( > آگے چلتے ہیں) ہاں میں اس وقت سے > زیب سے بات > نہی کرتا تھا اس لئے میں نے اس رات > بھی اس کی لڑائ میں حصہ لینے سے > انکار کر دیا۔ > یہ چلے گئے۔ صبح سویرے کوئ پانچ > بجے میرا دوست الف پریشان حالت میں > میرے پاس آیا > مجھے ایک پلاسٹک کی > تھیلی دی اور کہا کہ اسے > کہیں چھپُا دینا۔ اور مجھے خبردار > کیا کہ میں بھی کچھ دن کے لئے کہیں > پتلی گلی پکڑ > لوں۔ میں حیران ہوا کہ ایسی کیا > بات ہوئ ہے ۔ میں نے جب پلاسٹک کی > تھیلی کھول کر > دیکھی تو اس میں خون سے بھری شرٹ > تھی اور ایک گولی تھی جس پر خون > تھا۔ میرے دوست > نے مجھے بتادیا تھا کہ زیب کو > پولیس کی گولی لگی ہے اور یہ بھی کہ > گولی کس نی > نکالی ہے۔ اور وہ فرار ہوگیا تھا۔ > میں گھبرا > گیا کہ یہ کیا ہے ۔میرے والد صبح > سویرے اخبار ضرور پڑھتے تھے۔ صبح > سات بجے اخبار > خرید کر لائے تو اخبار میں زیب کے > حوالے سے سرخیوں میں خبر تھی کہ > زیب سمیت چند > ڈاکوؤں نے ایک ہسپتال میں رات کو > ڈکیتی کی کوشش کی جس پر پولیس > مقابلہ ہوا اور زیب > زخمی حالت میں فرار ہو گیا۔ باہر > نکلا تو اخبار کی دکان پر تمام > اخبارات میں یہ > خبر شہہ سرخیوں میں شایع ہوئ تھی۔ > میں نے اپنی ماں اور باپ کو حالات > سے آگاہ کیا > پہلے تو جوتے پڑے پھر مجھے میرے > ایک عزیز کے گھر چھپا دیا گیا۔ اور > وہ تھیلی میری > ماں نے جاکر الف کے گھر دے دی اور > ان کو بتایا کہ پولیس ضرور اس گولی > کے بارے میں > پوچھے گی۔ بحرحال کوئ صبح دس یا > گیارہ بجے پولیس نے پورے علاقے کو > گھیر لیا۔ الف ، > زیب، س اور کچھ دوست پکڑے گئے۔ > میرے دوست کے گھر سے وہ گولی بھی > برآمد ہوگئ۔ میرے > دوست الف نے پولیس سے مار کھانے کے > باوجود بھی میرا زکر نہی ۔ ایک > چھوٹی سے لڑائ > تھی جسے ڈکیتی قرار دیا گیا بعد > میں زیب کی والدہ نے بیان دیا کہ اس > کا بیٹا اپنی > بھابی اور بھتیجے کا دیکھنے آیا > تھا سیکورٹی والے نے اسے گالی دیکر > مخاطب کیا اس جھگڑہ > ہوا جسے پولیس نے ڈکیتی کا رنگ دے > دیا۔ رات کو ہسپتال میں کونسا کیش > ہوتا ہے > بحرحال ہسپتال کی انتظامیہ کے نا > چاہنے کے باوجود بھی پولیس اپنے > موقف پر قائم رہی > یہ کیس کئ سال چلا کئ دوستوں کو > اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ > اور ایک معمولی > سے لڑائ نے ان کی زندگی بدل دی۔ > بحرحال اب اس بات کو ایک عرصہ گُزر > چُکا ہے اس > واقعہ سے تعلق رکھنے والا ایک دوست > الف پاکستان میں ہے س کے بارے میں > معلوم نہی کہ > زندہ ہے یا نہی باقی پاکستان سے > باہر ہیں اپنی زندگی جے رہے ہیں۔ > خدا تعالیٰ ظلم > کرنے والے کو سزا اسی دنیا میں > دیتا ہے۔