حریر: شہزاد، عمران رانا ایڈووکیٹ گذشتہ دنوں لاہور میں قومی سطح کے دو وکلاءکنونشنز کا انعقاد عمل میں لایا گیا ہے ایک کنونشن سابقہ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی 28 جولائی کو عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر نااہلی پر اور دوسرا کنونشن پنجاب کی عدالتِ عالیہ کی طرف سے ملتان میں ہونیوالے واقعہ پر بینچ اور بار کے تعلقات کے موضوعات پرتھے۔دونوں کنونشنز میں پورے پاکستان سے وکلاءبرادری نے بھرپور شرکت کرکے اِن کو کامیاب بنایا۔
پہلا کنونشن لاہور کے ایوانِ اقبال میں 25اگست کو پاکستان مسلم لیگ (ن) لائیرز فورم کے زیر اہتمام ہوا ۔کنونشن کوکامیاب بنانے کے لئے کئی روز سے تیاریاں کی جارہی تھیں جس کی انتظامیہ میں مرکزی اور مقامی قیادت نے بھرپور حصّہ لیا جن میں مرکزی صدر نصیر احمد بھٹہ کے علاوہ رانا ظفر اقبال ، راجا خرم شہزاد ، رانا اطہر فاروق ،امتیاز الٰہی،صفدرجٹ، زاہد حسین ملک ،عرفان بسرائ، چوہدری اشتیاق، رفاقت ڈوگر، خماس محمود حسین اورفہیم شوکت ہاشمی سمیت کئی اہم رہنما شامل تھے ۔سابقہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اِس کنونشن میں بھرپور پروٹوکول کے ساتھ شریک ہوئے اِ ن کے علاوہ شرکاءسے خطاب کرنے والوں میں وکلاءسیاست کے اہم راہنماجن میں عاصمہ جہانگیر گروپ کے اعظم نذیر تارڑ ، آرائیں گروپ کے سربراہ میاں اسرار احمد، سابقہ سیکرٹری سپریم کورٹ بارمحمد اسلم زار،موجودہ صدر لاہور بار چوہدری تنویر اخترشامل تھے جبکہ سیکرٹری لاہور بار ملک فیصل اعوان اورصوبائی وزراءراناثناءاللہ ،رانا مشہود احمد خان سٹیج پر موجود تھے۔
خطاب کے دوران مقررین نے سابقہ وزیر اعظم کوآئندہ بھی اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا جبکہ سابقہ وزیر اعظم نے صرف 28جولائی کے عدالتِ عظمیٰ کے حکم پربات کی اِس کنونشن میں وکلاءبرداری نے بھرپور شرکت کی مگر اِس کنونشن کی خاص بات یہ تھی کہ اِس کنونشن میں چند ایسے چہرے بھی نظر آئے جوسیاسی طور پر (ن)لیگ لائیرز فورم کے مخالف ہیں یا پھر اُن کا تعلق کسی دوسری سیاسی جماعت کے لائیرز فورم سے ہے۔
دوسرا کنونشن بھی لاہور میں ہی ہوا جو لاہور ہائیکورٹ کے جاوید اقبال آڈیٹوریم میں 26اگست کو سپریم کورٹ بار ،لاہورہائیکورٹ بار اورلاہور بار کے زےر انتظام تھا اِس کنونشن میں21اگست کو پولیس کی طرف سے وکلاءپر بیہمانہ تشدد اور صدر لاہورہائیکورٹ بار ملتان بینچ کے خلاف چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ کی طرف سے توہین عدالت کی کاروائی اور لائسنس کی معطلی پر شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ۔
کنونشن سے سپریم کورٹ بار ،لاہورہائیکورٹ بار،لاہور بارکے عہدیداروں کے علاوہ چند ممبران پاکستان و پنجاب بار کونسل نے خطاب کیا جبکہ آئندہ بارالیکشن 2018-19کے امیدواروں کے علاوہ نوجوان وکلاءکی بڑی تعداد نے اِس تحریک میں جان ڈالنے والے راہنما شرافت خان ، میاں مجاہد تنویر اور غلام عباس ساحرجو اِس وقت کسی بار کابینہ کے عہدیدار بھی نہیں ہیں سمیت بھرپورشرکت کی ۔یاد رہے کہ کنونشن میں21اگست کوچند میڈیا ہاﺅسز کی طرف سے جانبداری کا مظاہرہ کرنے پر الیکٹرنک میڈ یا کے لئے کوریج پر مکمل پابندی عائدتھی۔
کنونشن میں شرکاءنے صدر لاہورہائیکورٹ بار ملتان بینچ شیر زمان قریشی کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی روکنے اور معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جانے کی قراردادیں منظور کیں جبکہ دوسری طرف اِس دوران پنجاب بارکونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس جاری
تھاجس کے ممبران سید فرہاد علی شاہ ، محمدعارف خان گورمانی اورعبدالعزیز خان پونیاں نے ایک جرا ¿ت مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے 21اگست کولاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ کی طرف سے توہین عدالت کی کاروائی کے دوران صدر لاہورہائیکورٹ بار ملتان بینچ کے لائسنس کی معطلی کے حکم کو کالعدم قرار دیدیا اور جیسے ہی یہ خبر کنونشن میں پہنچی تو وہاں موجود شرکاءمیں خوشی کی لہردوڑپڑی۔
موجودہ صورتحال میں عام رائے یہ ہے کہ تقریباً ساڈھے چار سالوں میں میاں محمد نواز شریف جب وہ وزیراعظم تھے انہوںنے کبھی وکلاءبرداری سے خطاب نہیں کیا اور ویسے بھی اِس وقت انہوں نے سپریم کورٹ میں اپنی نااہلی کے حکم پر نظرثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے تو اُس کے فیصلے کا انتظار کرنا ہی بہتر ہوگاجبکہ دوسری طرف لاہور ہائیکورٹ کافل بینچ چند ماہ سے جو کام سرانجام دے رہا ہے یہ کام لیگل پریکٹیشنرزاینڈ بار کونسلز ایکٹ 1973کے تحت صوبائی بار کونسل ہوتا ہے جو وکلاءکے خلاف ہرطرح کی کاروائیوں کا اختیار رکھتی ہیں مگر اِس کے برعکس اگر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سوموٹو ایکشن لے ہی لیا تھا تووہ جسٹس محمد قاسم خان کے خلاف بھی ریفرنس سپریم جوڈیشنل کونسل میں بھجواکرمساوی عمل کرتے ہوئے تلخی کم کرتے ناکہ غیر آئینی اقدام کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ ملتان بینچ کو بندکردیتے۔موجودہ صورتحال کے بعد فریقین کو چاہئے کہ وہ درمیانی راستہ نکالتے ہوئے افہام وتفہیم سے اِس معاملے کو حل کریں اور مل کر ملک میں عام آدمی کے لئے ”انصاف کی فراہمی“ کو یقینی بنائیں۔