اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ کی جانب سے جمعے کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔ اس واقعے کے بارے میں میڈیا میں رپورٹس میں بھی کہا گیا تھا کہ وہاں پر موجود پولیس اہل کاروں نے بھی اس واقعہ کو نہیں روکا بلکہ وہ ایک خاموش تماشائی بن کر وہاں کھڑے رہے۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے پنجاب پولیس کے سربراہ اور لاہور پولیس کے سربراہ کو 24 گھنٹوں میں ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ڈی آئی جی انوسٹیگیشن لاہور ذوالفقار حمید نے بی بی سی کو بتایا کہ اس مقدمے میں چار افراد کو ان کے گاؤں سید والہ سے گرفتار کیا گیا ہے جن میں ایک مقتولہ کا انکل، اس کے دو کزن جب کہ ایک ڈرائیور ہے جو ملزمان کو لے کر لاہور ہائی کورٹ آیا تھا۔
ڈئی آئی جی نے ملزمان کے نام بتانے سے گریز کیا اور کہا کہ چونکہ اس مقدمے میں ملوث دیگر افراد کو بھی گرفتار کرنا ہے اس لیے ان کے نام نہیں بتائے جاسکتے۔ ذوالفقار حمید کا کہنا تھا کہ فرزانہ قتل مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ان ملزمان کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے ان کا جسمانی ریمارنڈ حاصل کیا جائے گا۔ جب ان سے گرفتار ہونے والے افراد کے اس واقعہ میں ملوث ہونے کے بارے میں پوچھا تو ڈی آئی جی انوسٹیگیشن کا کہنا تھا کہ تفتیش کے دوران معلوم ہوگا کہ اُن کا اس واقعہ میں کتنا کردار ہے۔
اس سے قبل وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے بھی اس قتل کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کی تھی۔ خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے باہر منگل کو 30 سالہ فرزانہ کو اس کے گھر والوں نے پسند کی شادی کرنے پر اینٹوں کے وار کر کے قتل کر دیا تھا۔
فرزانہ کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ سے تھا اور انھوں نے کچھ عرصہ پہلے گھر سے بھاگ کر محمد اقبال سے پسند کی شادی کی تھی۔ وہ اپنے خاوند اقبال کے ساتھ منگل کی صبح لاہور ہائی کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے لیے آ رہی تھیں کہ ججز گیٹ کے پاس پہلے سے ہی ان کے بھائی والد اور ان کا ماموں زاد جو کہ فرزانہ کا سابقہ منگیتر بھی تھا گھات لگائے بیٹھے تھے۔
جونہی فرزانہ احاطۂ عدالت میں داخل ہونے لگیں یہ لوگ انھیں گھسیٹ کر دوسری طرف لے گئے اور چند ہی لمحوں میں ان کے سر پر اینٹیں مار مار کر انھیں قتل کر دیا۔ پولیس نے فرزانہ کے والد عظیم کو گرفتار کر لیا تھا جب کہ ان کے باقی رشتہ دار فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
ایس پی سول لائنز عمر چیمہ کے مطابق آس پاس موجود پولیس اہل کار فرازانہ کو چھڑوانے کے لیے دوڑے بھی لیکن چار حملہ آوروں کے علاوہ بھی کچھ لوگ ان کے ساتھ تھے جن کے پاس اسلحہ بھی تھا، انھوں نے پولیس سے مزاحمت کی اور جتنی دیر میں پولیس اہل کار نے ان سے پستول چھینی فرزانہ مر چکی تھیں۔