تذکرہ لاہور کا ہو اور قلم مستنصر حسین تارڑ کا، تو لاہور کے زمانوں کی سیر نہ کرنا شاید محرومی ہی ہو گی- سفرنامے کسی بھی ملک اور علاقے کی ثقافت، رسوم و رواج، لوگوں کے معیار زندگی اور ان کی تاریخ کا بے ساختہ اظہار ہوا کرتے ہیں- جغرافیائی دلکشی اور خوبصورتی کے ساتھ ساتھ یہ سفرنامے کسی مسافر کے مشاہدے اور اس کے زاویہ نگاہ کو بھی بیان کرتے ہیں- سفرنامے لکھنے والوں کی ایک لمبی قطار ہے اور ہر مسافر نے اپنے اپنے اسلوب اور انداز بیاں سے پڑھنے والوں کو مسحور کیا ہے- بعض سفرنامے بس اک بار ہی اپنے قاری کو اس مقام تک لے جا پاتے ہیں جہاں تک سفر کرنے والا پہنچا ہوتا ہے، لیکن کچھ سفرنامے ہمیشہ کے لیے انسان کے ذہن و دل پر نقش ہو کر اسے ان جغرافیائی حدود اور مناظر میں قید کر دیتے ہیں جسے مصنف نے بیان کیا ہوتا ہے-
“لاہور آوارگی” بھی ان سفر ناموں میں شامل ہے جو اپنے اسلوب، بیش بہا تاریخی معلومات اور مصنف کے مشاہدات کی بنا پر پڑھنے والوں کے دل و دماغ پر چھاتا ہوا محسوس ہوتا ہے- یہ سفرنامہ پڑھتے ہوئے مجھے مطالعہ کا احساس نہیں ہوا، بلکہ یوں محسوس ہوا جیسے میں خود لاہور کے ان زمانوں کا چشم دید گواہ بن گیا ہوں جن میں یہ مصنف خود گھوم رہا ہے- “لاہور آوارگی” سفرنامہ کم اور لاہور کی تاریخ زیادہ معلوم ہوتا ہے- مستنصر حسین تارڑ کہتے ہیں، کسی بھی قدیم شہر کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، البتہ ہر دور میں اس کے باسی کسی خاص مذہب کے پیروکار ہوتے ہیں اور پھر زمانے گزرتے ہیں تو وہ کسی اور عقیدے کا دامن تھام لیتے ہیں..شہر نہیں باسی مذہب بدلتے رہتے ہیں- قرطبہ کبھی رومی، کبھی عیسائی، پھر مسلمان اور پھر عیسائی، استنبول، رومی، عیسائی، مسلمان فی الحال، دمشق، بلخ، بابل، بیت المقدس سب کے سب مختلف عقیدوں کے چہروں والے شہر.. یہاں تک کہ مکہ بھی کبھی کافر تھا اور یثرب یہودیوں کی بستی- لاہور بھی، کبھی جین، کبھی ہندو اور وہ بھی راجپوت، کبھی افغان مسلمان اور کبھی سکھ راجدھانی، اور پھر سلطنت انگریز صاحب بہادر کی اور تادم تحریر ایک مسلمان شہر- کیا جانئے کل کیا ہوگا، یہ کس عقیدے کا شہر ہو گا، جو بھی ہو گا،لاہور، لاہور ہوگا-
مصنف نے لاہوری دروازے سے اندرون لاہور داخل ہو کر چوک چکلا سے آغاز کیا ہے جہاں کسی زمانے میں طوائفوں کے کوٹھے تھے اور ان کی نسبت سے یہ چوک چکلا کہلایا- آج کل اس کا نام بدل دیا گیا ہے مگر پرانے باسی اسے چوک چکلا کے نام سے ہی پکارتے ہیں- مائی موراں کی مسجد جسے بہت عرصہ پہلے کنجری کی مسجد کہتے تھے کے بارے تارڑ صاحب کہتے ہیں کہ موراں ایک دل ربا طوائف تھی اور مور کی مانند رقص کرنے کی بنا پر اسے موراں کہا گیا- مہاراجہ رنجیت سنگھ نے موراں کو اپنے حرم میں داخل کیا اور لاہور ٹکسال سے اس کے نام کا سونے کا سکہ ڈھالا گیا- محققین کے مطابق برصغیر میں موراں وہ پہلی عورت تھی جس کے نام کا سکہ جاری ہوا- حویلی میاں سلطان ٹھیکیدار کے بارے مصنف یوں قلمطراز ہیں، “سلطان ٹھیکیدار لاہور کی تاریخ کا ایک اہم اور داستانوی کردار ہے- سلطان کی سرائے کا معمار، لاہور سٹیشن کو تعمیر کرنے والا، انگریزوں کی چھاؤنی میاں میر کی بیشتر کولونئیل عمارتیں بھی اسی کی نگرانی میں تعمیر ہوئیں- اس نے مغل عہد کے مقابر، مساجد، حویلیاں جو کھنڈر ہو چکے تھے ان کی اینٹیں ان تعمیرات میں استعمال کیں اور کہا جاتا ہے کہ اس نے اینٹوں کے حصول کے لیے کئی شاندار مغل عمارتیں جن میں مساجد بھی شامل تھیں اور وہ شاہی شان و شوکت سے ابھی قائم تھیں، انہیں بھی ڈھا دیا- سلطان ٹھیکیدار لاہور کا رئیس اعظم ہوا اور پھر آخر میں پائی پائی کا محتاج ہو کر نہایت برے حالوں میں اپنے انجام کو پہنچا”-
کتاب کے تمام ابواب دلچسپ اور تاریخی معلومات لیے ہوئے ہیں لیکن” کتابوں کا جہان، لاہور” کے باب میں مصنف نے کئی راکھ ہوئے مکتبوں اور کتب خانوں کا ذکر کرتے ہوئے قاری کو بے ساختہ” کاش” اور” افسوس” جیسے الفاظ ادا کرنے پر مجبور کیا ہے- منشی نول کشور لکھنؤ اور مکتبہ عثمانیہ حیدر آباد کے بعد لاہور کتابوں کی اشاعت کا سب سے بڑا مرکز تھا- مصنف کہتے ہیں اتوار کو پاک ٹی ہاؤس کے سامنے اور انار کلی بازار میں پرانی کتابوں کی اوپن ائیر نمائش شاید دنیا بھر میں کہیں نہیں ہوتی- پرانی کتابیں، میگزین، مسودے، دنیا بھر کے ادیبوں شاعروں کے نایاب نسخے ایک ایسے قالین کی مانند بچھے ہوتے ہیں جس کی بنت میں دوستووسکی سے لے کر آرتھر کانن ڈائل، دت بھارتی اور وہی وہانوی کے ناول موجود ہوتے ہیں- اس کتاب کے فٹ پاتھی عجائب گھر کا کوئی مذہب، کوئی نظریہ نہیں ہوتا- اس کے علاوہ سرکلر روڈ، سیتلا مندر، بھاٹی دروازے کے فٹ پاتھی کتب گھروں کا ذکر بھی مصنف نے دلچسپ انداز میں کیا ہے- فیروز سنز کا تذکرہ کرتے ہوئے تارڑ صاحب لکھتے ہیں کہ، فیروز سنز لاہور میں کتابوں کا وسیع اور پراسرار شو روم تھا لیکن جو شے نایاب یا پر کشش ہو اسے یا تو نظر لگ جاتی ہے یا آگ لگ جاتی ہے- فیروز سنز کو بھی نہ صرف نظر بلکہ آگ بھی لگ گئی، اب وہاں ایک مختصر کتابوں کا شو روم ہے- موجودہ شاندار کتب خانوں میں ریڈنگ اور سنگ میل پبلی کیشنز کے بارے مصنف کہتے ہیں کہ ان کے تذکرے کے بغیر لاہور کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی-
لاہور کے حسن پر بھی اس آوارہ لاہوری کا قلم “زنان لاہور یعنی لاہور کی لڑکیاں” نامی ایک باب ترتیب دیتا ہے- مصنف کہتے ہیں کہ اگر جائزہ لیا جائے تو بیشتر فیشن کی تخلیق کرنے والوں کا آبائی شہر لاہور ہے اور نہ صرف امرتسر، پٹیالہ، جالندھر بلکہ دلی میں بھی بیشتر دلہنوں کا لباس لاہور کے فیشن ڈیزائنز کا کرشمہ ہوتا ہے- اداکار پران لاہوری کے مطابق یہ شہر برصغیر میں جدید ترین فیشن کا موجد ہوا کرتا تھا، یہاں تک کہ اگر ایک سویر ایک لاہوری لڑکی غلطی سے اپنی دونوں چوٹیوں میں ایک ہی رنگ کے ربن باندھنے کی بجائے ایک سرخ اور ایک نیلا رنگ باندھ لیتی تو راس کماری سے کشمیر تک کی لڑکیاں اپنے بالوں میں الگ الگ رنگوں کے سرخ اور نیلے ربن باندھنے لگتی تھیں… کہ لاہور کی لڑکیاں یہ فیشن کرنے لگی ہیں- تارڑ صاحب کہتے ہیں کہ لاہور کے پانیوں میں بھی حسن کو نکھارنے کی کوئی تاثیر ہے… اور اس کی گواہی وہی لوک گیت دے گا کہ… مجھے بتاؤ تو سہی کہ شہر لاہور کے اندر جتنے کنویں ہیں ان میں سے کس کے پانی کھارے اور بد ذائقہ ہیں اور کن کے پانی میٹھے اور شیریں ہیں تو جان لو کہ جن کنوؤں سے لاہوری معشوق پانی بھرتے ہیں وہ سب میٹھے پانیوں والے ہیں باقی سب کھارے پانیوں کے ہیں- مصنف نے نہایت شاعرانہ، ادیبانہ اور رومانوی انداز میں لاہور کے نسوانی چہروں کی لفظی مصوری کی ہے-
لاہور آوارگی کنہیا لال کی “تاریخ لاہور” تو نہیں ہے لیکن ماضی اور حال کے لاہور کو بہترین انداز میں پیش ضرور کرتی ہے- بعض جگہوں پر تکرار کا بھی احساس ہوتا ہے لیکن کہیں بھی یہ قاری کی توجہ کسی اور جانب نہیں کرنے دیتا- 2017 میں شائع ہونے والا، چار سو آٹھ صفحات پر مشتمل یہ سفر نامہ لاہور کے تمام کونوں کھدروں کو عیاں کرتا ہے اور قاری بے ساختہ لاہور جانے کو تڑپ اٹھتا ہے- کسی نے سچ کہا تھا،” جنے لہور نئیں ویکھیا، او جمیا ای نئیں”