لاہور (جیوڈیسک) لاہور میں ام رباب سے پہلے بھی اس جیسے کئی معصوم ایسی ہی درندگی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ رواں سال ستائیس جنوری کو جوہر ٹاؤن میں شفقت نامی ملازمہ غضب کا نشانہ بنی اگلے ہی روز مسلم ٹاؤن میں تاجر کے گھر سے عنصر کو بازیاب کرایا گیا۔
گزشتہ سال اسی شہر میں عسکری نائن میں ارم اپنی مالکن کے تشدد سے جان کی بازی ہار چکی۔
ڈیفنس میں سلمان نامی پروفیسر نے اپنی ملازمہ کو تشدد کے ساتھ ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بھی بنایا لیکن ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی واقعہ ہوتا ہے شور مچتا ہے بیانات آتے ہیں لیکن پھر خاموشی۔
جنوری دو ہزار چودہ میں پنجاب اسمبلی میں گھریلو ملازمین پر تشدد روکنے کا بل پیش ہوا لیکن ابھی تک قانون بنانیوالوں کی توجہ کا منتظر ہے۔ اسی شہر میں عالمی لیبر کانفرنس نے کئی اقدامات تجویز کئے لیکن عمل نہیں ہوا۔