فرروری کی 14 سے 16 تاریخ تک پاکستان کے دل کہلانے والے شہر لاہور میں بھارت نے کروڑوں روپے خرچ کر کے صنعتی و تجارتی نمائش کا اہتمام کیا۔ نمائش کے لئے پہلی بار بڑے پیمانے پر تشہیری مہم بھی چلائی گئی لیکن بھارت کو سالہا سال لی جدوجہد کے باوجو د اس متوقع پیشرفت میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہو سکی جس کے لئے وہ دن رات کوشش میں مصروف ہے اور امریکہ سمیت ساری دنیا سے پاکستان پر الگ سے دبائو بھی ڈلوا رہا ہے۔ یوں بھارت کی جانب سے مسلسل کوشش اور پاکستان کی جانب سے مسلسل وعدوں کے باوجود دفاع پاکستان کونسل اور جماعة الدعوة کی شبانہ روز مخالفانہ عوامی مہم کے باعث پسندیدہ ترین تجارتی قوم کا درجہ نہ ملنے کے باعث بھارتی حکام اور تاجر و صنعت کار اس قدر مایوس نظر آئے کہ بھارت نے اپنی اس صنعتی و تجارتی نمائش کو ”کپڑا جیولری شو” میں بدل دیا۔ بھارت کے وزیر تجارت آنند شرما نے بھی عین وقت پر اپنے لاہور آنے کا فیصلہ بدل لیا جس کے باعث پاکستان کے وزیر تجارت خرم دستگیر کو پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر ٹی وی اے راگھوان اور دیگر عام بھارتی و سارک عہدیدار ان کے ساتھ مل کر نمائش کا افتتاح کرنا پڑا۔ بھارت کو اس نمائش سے قبل پوری طرح امید تھی کہ پاکستان بھارت کو تجارت کیلئے پسندیدہ ترین تجارتی قوم کا درجہ دے کر اس کیلئے ہر طرح کی تجارت کے راستے کھول دے گا۔
دو سال پہلے اسی ماہ فروری میں اور اسی شہر لاہور میں ہونے والی نمائش میں بھارت کی ہر درجے کی صنعتوں نے سٹال لگائے تھے اور کوشش کی تھی کہ وہ اپنی مصنوعات کو نہ صرف پاکستان میں متعارف کروائیں بلکہ ان کی فروخت بھی بڑے پیمانے پر شروع کر سکیں لیکن دو سال پہلے اور بعد کی محنت شاقہ کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا۔سال 2014ء کے آغاز کے ساتھ جنوری ہی میں پاکستانی وزیر تجارت خرم دستگیر نے بھارت کا خصوصی دورہ کیا تھا جس میں دوطرفہ تجارت کو بڑھانے کا تو اعلان ہوا لیکن پاکستان نے ایک بار پھر بھارت کو پسندیدہ ترین تجارتی قوم یعنی ”ایم ایف این” کا درجہ دینے کے بجائے یہ کہہ دیا کہ اس کا حل کسی اور طریقے سے نکال دیا جائے گا اور دونوں طرف کی تجارتی راہداریاں زیادہ سے زیادہ کھولی جائیں گی۔ اس موقع پر بھارت نے لاہور میں اپنی بڑی صنعتی جارتی نمائش کا بھی اعلان کیا۔ ساتھ ہی بھارتی وزیر تجارت آنند شرما نے اعلان کیا کہ وہ نمائش کے افتتاح کیلئے پاکستان کا دورہ کریں گے تاکہ تجارت کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جا سکے۔
اس دوران بھارت مسلسل کوشش میں مصروف رہا کہ پاکستان اسے ایم ایف این کا درجہ دے دے لیکن جب اسے یہ درجہ نہ ملا تو بھارت نے اپنی اس نمائش کو عوامی ”شو” میں بدل دیا اور وزیر تجارت نے مایوسی کے مارے اپنا دورہ ہی منسوخ کر دیا۔ اس نمائش میں دو سال پہلے کی نسبت بیسیوں کے بجائے محض 6 سے 7 بھارتی صنعتی اداروں کے ہی سٹال نظر آئے اور انہیں بھی دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ وہ بھی بددلی کا شکار ہیں۔ البتہ خواتین کو خاص طور پر متوجہ کرنے کیلئے ہر طرف کپڑوں اور جیولری کے سٹال لگا دیئے گئے لیکن ان سٹالز پر ملبوسات اور جیولری اس قدر مہنگی تھی کہ لاہور کے بگڑے امیرزادے بھی لاکھوں بلکہ کئی ملین تک کی قیمتیں سن کر منہ دوسری طرف کر لیتے۔ یہاں بھارت سے آنے والے وفود کی مایوسی کا یہ عالم تھا کہ اٰخری روز جب سب سے زیادہ رش تھا، پروگرام کے طے شدہ وقت سے گھنٹوں پہلے ہی سٹال سمٹنا شروع ہو گئے تھے اور ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہی داخلی دروازے بند کر کے لوگوں کو باہر ددھکیلنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ سٹالوں کی بھی تیزی سے بندش بھی شروع کر دی گئی تھی، حالانکہ یہاں منعقد ہونے والی ہر نمائش کے موقع پر ہمیشہ وقت میں اضافہ کیا جاتا ہے اور آخری روز تو خاص طور پر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ شرکت کا موقع دیا جاتا ہے لیکن بھارتی حکام اور وفود کی مایوسی کا یہ عالم تھا کہ جب مقررہ وقت سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے داخلی دروازے بند کئے گئے تو پہلے کے تجربات اور اندازوں سے تاخیری یا آخری لمحات میں آنے والے سینکڑوں لوگ اندر داخل ہی نہ ہو سکے۔ اس بھارتی شو کے موقع پر ایکسپو سنٹر کے ایک ہال کے سو کے لگ بھگ سٹال بھی بھارت کی جانب سے بھرے نہ جا سکے۔ جبکہ اس خفت کو مٹانے کے لئے اسی دوران سب سے بڑے سٹال پاکستانی حکومتی بینکوں سے لگوائے گئے۔ جس سے ہال کا کچھ حصہ بھر گیا لیکن بہت سے سٹال پھر بھی خالی رہے۔
India
بھارت سے آئے ان لوگوں نے مایوسی کے مارے اس نمائش سے صرف یہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان میں ان کے لئے ہمدردی و محبت کے جذبات پیدا ہوں اور نفرت کی فضا میں کمی آئے، اس کیلئے بھی انہوں نے پہلی مرتبہ اپنے جسم کا بڑا حصہ برہنہ کرنے والی روایتی ساڑھیاں پہنا کر خواتین تک کوسٹالوں پر کھڑا کیا لیکن انہیں پھر بھی وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کی امید پر انہوں نے اس نمائش کے لئے کروڑوں روپے کی اشتہاری مہم الگ سے چلائی تھی۔ لاہور کی یہ بھارتی صنعتی نمائش جسے بعد میں عوامی شو میں بدل دیا گیا تھا، کے افتتاح کے موقع پر پاکستانی وزیر تجارت خرم دستگیر نے جہاں اس بات پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا کہ بھارتی وزیر تجارت آنند شرما وعدے کے باوجود نہیں آئے تو وہیں انہوں نے بھارت کی جانب سے پاکستانی مصنوعات اور برآمدات پر بھارت میں عائد نان ٹیرف بیریئرز کا بھی تذکرہ کیا کہ یہ تجارت کے آگے بڑھانے میں رکاوٹ ہیں۔ خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ انہیں ختم کر کے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ بھارت کی ان نان ٹیرف بیریئرز کا بھی ذکر کیا جائے جن کے تحت بھارت اپنے ہاں باہر سے آنے والی مصنوعات کو داخلے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر کسی کو اجازت دی جائے تو اس پر اس قدر بھاری ٹیکس عائد کئے جاتے ہیں کہ وہ ملک واپس جانے پر ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے۔ ان پابندیوں کو نان ٹیرف بیریئرز کہا جاتا ہے جو بھارت باہر کے ممالک پر لگاتا ہے۔ کہنے کو توبھارت سوا ارب انسانوں کی منڈی ہے لیکن اس نے ایسی معاشی جکڑ بندیاں تشکیل دے رکھی ہیں کہ جو باہر سے آنے والے کسی دوسرے ملک کو وہاں آزادانہ تجارت کا موقع ہی نہیں دیتیں۔ بھارت پاکستان سے تو ہر صورت پسندیدہ ترین تجارتی قوم کا درجہ حاصل کرنے کے لئے برسوں سے مصروف عمل ہے لیکن وہ پاکستانی مصنوعات پر عائد پابندیاں بھی ختم کرنے کو تیار نہیں جن کا رونا پاکستانی وزیر تجارت نے خصوصی طور پر رویا۔اس شو کا افتتا حی پروگرام اس قدر مایوس کن تھا کہ ایگری فورم پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر ابراہیم مغل بھی کہہ اٹھے کہ افتتا حی تقریب میں پاکستان کے وزیر تجارت خرم دستگیر ایکسپو سنٹر کی خالی کرسیوں سے خطاب کرتے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام بھارتی بنئے کی ساری چالاکیوں اور چالوں سے سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام نے خرم دستگیر کے ایکسپو سنٹر میں میڈ ان انڈیا کے پروگرام کو تو مسترد کر دیا لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بھارت کے ساتھ تجارت سے خرم دستگیر کا ذاتی مفاد وابستہ ہے کیونکہ بھارتی مصنوعات کی پروموشن کرنے پر خود خرم دستگیر کی ذات پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں ،مسلم لیگ ن کی حکومت کو اس میں محتاط رہنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام پاکستان کے روکے ہوئے پانی سے تیار کی جانے والی بجلی سے جو بھارتی مصنوعات تیار کر کے پاکستان لائی گئی اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
بھارتی مصنوعات سے کشمیریوں کا خون ٹپکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان حالات میں جبکہ پاکستان میں بھارت 170 ارب روپے کی اشیا بھیج رہا ہے جبکہ وہ خود پاکستان کی 35 ارب روپے کی مصنوعات خریدنے کو تیار نہیں۔ اس حوالے سے لاہور کی تاجر تنظیموں کے رہنمائوں نے کہا کہ پاک بھارت آزادانہ تجارت سے بھارت کی معیشت مضبوط جبکہ پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں ماند پڑیں گی۔ پاکستان تاجر اتحاد کے صدر خالد پرویز قومی تاجر اتحاد کے صدر سلیم بٹ اور قومی تاجر لاہور کے جنرل سیکرٹری حافظ عابد علی نے پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تجارتی سرگرمیاں بجلی و گیس بحران کے باعث تباہ حالی سے دوچار ہے۔ ملکی تاجر اور صنعتکار ڈگمگاتی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے سرگرم عمل ہیں تاہم حکومت کی جانب سے معاشی پالیسیوں میں اصلاحات لانا سمجھ سے بالاتر ہے۔