لاہور (جیوڈیسک) سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے اور چیف جسٹس ثاقب نثار نے صورتحال کا جائزہ لینے کےلیے جائے وقوعہ کا دورہ کیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ ہوئی ہے۔ نامعلوم افراد کی جانب سے دو بار فائرنگ کی گئی ہے۔ فائرنگ کے واقعات گزشتہ شب 10:45 اور آج صبح 9:45 منٹ پر پیش آئے۔ پولیس کی جانب سے تاحال حملے میں ملوث کسی شخص کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔
فرانزک ٹیموں نے دو مرتبہ جسٹس اعجازالاحسن کے گھر کا دورہ کرکے شواہد اکھٹے کیے ہیں۔ تفتیشی ٹیموں کو جائے وقوعہ سے گولی کا ایک سکہ ملا ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق رات کو فائر کی گئی ایک گولی مرکزی دروازے اور صبح فائر کی گئی دوسری گولی کچن کی کھڑکی پر لگی ہے، فائرنگ نائن ایم ایم پستول سے کی گئی ہے۔ پولیس سی سی ٹی وی کیمروں سے جائے وقوعہ کا جائزہ لے رہی ہے۔
سپریم کورٹ کے جاری اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار جسٹس اعجازالاحسن کی رہائش گاہ پہنچ گئے ہیں اور صورتحال کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے آئی جی پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز خان کو بھی جسٹس اعجازالاحسن کے گھر طلب کر لیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے جسٹس اعجاز الاحسن کی رہائش گاہ پر فائرنگ کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب پولیس سے رپورٹ طلب کرلی ہے اور ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا ہے۔
ادھر اسلام آباد میں بھی ججز کی سیکورٹی سخت کردی گئی ہے جبکہ ججز انکلیو کی حفاظت پر مامور اہلکاروں کو مزید الرٹ رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ایس ایس پی سیکورٹی جمیل ہاشمی سیکورٹی کی خود نگرانی کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ بار نے جسٹس اعجازالاحسن کے گھر پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جج کے گھر پر یوں فائرنگ ہونا افسوسناک عمل ہے، ججز کی سیکورٹی پر خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
دو روز سے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل دو رکنی بنچ از خود نوٹسز کی سماعت کررہا ہے۔ گزشتہ روز بھی بنچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں انصاف کی فوری فراہمی اور روزانہ سماعت کا حکم دیا تھا۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے جسٹس اعجاز الاحسن کو پاناما کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے نگراں جج تعینات کیا تھا۔ وہ پاناما فیصلے پر عملدرآمد کے لیے نگراں جج کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور شریف خاندان اور اسحاق ڈار کے خلاف نیب میں دائر ریفرنسز میں پیش رفت کو مانیٹر کر رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن 28 جولائی کو وزیراعظم نواز شریف کو نااہل کرنے کا فیصلہ سنانے والے 5 رکنی لارجر بینچ کا بھی حصہ تھے۔