تحریر : سید توقیر زیدی وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ سانحہ لاہور پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ دہشت گرد اپنا انجام دیکھ کر بزدلانہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ میرے بچوں، بچیوں اور بہن بھائیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ دہشت گردوں کو ہر حال میں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے لاہور دھماکے کی مذمت اور سانحہ میں ملوث دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جلد از جلد گرفتار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ معصوم بہن بھائیوں کے قاتلوں کو کٹہرے میں لائیں گے۔ دہشت گردوں کو غیر انسانی کام نہیں کرنے دیں گے اور نہ ہی انہیں آزادی میں مداخلت کی اجازت دیں گے۔ اتوار کی شب آرمی چیف کی صدارت میں سانحہ لاہور اور ملک کی مجموعی سیکیورٹی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی سمیت اعلیٰ افسروں نے شرکت کی۔
گلشنِ اقبال پارک (لاہور) کے سانحے کے بعد 56نعشیں شناخت کے بعد ورثا کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ لاپتہ افراد کی تلاش جاری ہے۔ سینکڑوں زخمیوں میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ ہسپتالوں میں زخمیوں کے علاج کی جگہ نہیں بچی، کئی زخمیوں کی حالت نازک ہے اور بعض ہسپتالوں کی انتظامیہ مزید زخمیوں کو لینے سے انکار کر رہی ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف نے گزشتہ روز صوبے میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا پیر کے روز لاہور کی مارکیٹیں سوگ میں بند رہیں۔ انہوں نے جناح ہسپتال اور شیخ زید ہسپتال میں جا کر زخمیوں کی عیادت کی اور خون کا عطیہ بھی دیا انہوں نے اعلان کیا سانحے کے ذمہ دار سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ آزادکشمیر اور سندھ کی حکومتوں نے بھی سوگ کا اعلان کیا تھا۔ لاہور میں تو سانحے کی اطلاع ملتے ہی تمام تفریحی پارک بند کر دیئے گئے تھے، جہاں جہاں موسم بہار کے میلے لگے تھے وہاں اداسی نے ڈیرے ڈال دیئے تھے اور لاہور کی پوری فضا پر سوگ کی چادر تن گئی تھی۔
ابتدائی طور پر مبینہ خودکش حملہ آور کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ ایک شناختی کارڈ کی بنیاد پر حاصل ہوئی ہیں جو دھماکے کی جگہ کے قریب سے ملا ہے۔ لیکن کیا خودکش بمبار اپنا شناختی کارڈ جیب میں ڈال کر نکلا تھا۔۔۔؟ ایک اجلاس میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ خودکش حملہ کہیں ”را” کے ایجنٹ کی گرفتاری کا ردعمل عمل تو نہیں۔ بعض حضرات تو یقین کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ اس دھماکے میں ”را” ملوث ہے لیکن جو کوئی بھی ملوث ہے وہ تو پس منظر میں بیٹھا ڈوریاں ہلارہا ہے آلہء کار کا کردار تو خودکش بمبار ادا کررہا تھا اور نہ معلوم کتنے عرصے سے اس کو اس مقصد کے لئے تیار کیا جا رہا تھا۔ اب جو تحقیقات کی جائیں ان کی بنیاد یہ ہونی چاہیے کہ دھماکے سے پہلے وہ کہاں کہاں رہا؟ اس کے جو بھی سہولت کار تھے اس دھماکے میں ان کا کردار کیا تھا، خودکش بمبار نے تو خود کو اڑا لیا اب اس کو اس مقصد کے لئے تیار کرنے والوں کے نیٹ ورک تک پہنچنے کی ضرورت ہے اور جب تک یہ نیٹ ورک توڑا نہیں جائے گا اس وقت تک کسی نہ کسی انداز میں خودکش حملے ہوتے رہیں گے۔
Lahore Park Blast
موقع پر مبینہ خودکش حملہ آور کی جو لاش ملی ہے اس میں اس کی ایک ٹانگ اْڑی ہوئی ہے جبکہ باقی دھڑ سلامت ہے ماضی میں جو خودکش حملے ہوتے رہے ان میں عام طور پرخودکش بمبار کا پورا جسم چیتھڑوں میں تبدیل ہو جاتا تھا اور گوشت کے لوتھڑے بن جاتے تھے یہ اگر خودکش بمبار تھا تو اس کا جسم سلامت کیسے رہا۔۔؟ ایسے لگتا ہے کہ اس حملے میں کوئی مختلف قسم کی ٹیکنیک استعمال کی گئی ایک تو اس میں بیس کلو کے لگ بھگ بارود کا استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی اور جانی نقصان بھی اس کی وجہ سے بہت زیادہ ہوا۔ خودکش حملہ آور اپنے جسم پر اتنا زیادہ بارود نہیں باندھ سکتا اور اگر اتنا بارود باندھ کر چل رہا ہو تو اس کی غیر معمولی چال دیکھنے والے دور سے اسے نوٹ کر سکتے ہیں۔حیرت ہے کہ وہ جہاں کہیں سے بھی چلا اور دھماکے کے مقام پر پہنچا لیکن کسی نے بیس کلو بارود اٹھاتے ہوئے شخص کی چال تک نوٹ نہ کی، تحقیقاتی اداروں کو اس پہلو سے بھی تفتیش کرنے کی ضرورت ہے کہ حملہ واقعی خودکش تھا یا وہ صرف سہولت کار تھا۔
لاہور کے خودکش حملے سے یہ بات بھی عیاں ہو گئی ہے کہ اب دہشت گردوں نے براہ راست حملے کرنے کی حکمتِ عملی تبدیل کر لی ہے اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں دہشت گردوں کی قوت میں معتدبہ کمی آ گئی ہے ان کا نیٹ ورک تباہ ہو چکا ہے اور مواصلاتی رابطوں کے لئے انہوں نے جو نیٹ ورک بنا رکھا تھا وہ بھی ختم ہو گیا ہے اب وہ مختلف جگہوں پر حملہ آور ہونے کی پوزیشن میں نہیں اس لئے وہ خودکش بمباروں سے کام لیتے ہیں، یہ عین ممکن ہے کہ خودکش بمبار کو اس کے انجام سے بے خبر رکھا گیا ہو اور دھماکہ ریموٹ کنٹرول ٹائم ڈیوائس کے ذریعے کر دیا گیا ہو۔ تحقیقاتی اداروں کو یہ بات بہرحال پیش نظر رکھنی چاہیے کہ دہشت گرد ایک طویل مدت کے بعد لاہور میں اس طرح کی ہولناک کارروائی کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، جس سے نہ صرف پورا شہر اور پورا صوبہ بلکہ پورا ملک سوگوار ہو گیا ہے۔ مرنے والوں اور زخمیوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں قریبی لوگ ہیں جن کے دل زخمی ہوئے ہیں۔اس دھماکے کے بعد اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب حکومت اپنے محفوظ شہروں کے پراجیکٹ پر تیزی سے کام کرے۔ اطلاعات کے مطابق شہر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا آرڈر دیا جا چکا ہے اور جلد ہی اس کی تنصیب شروع ہونے والی ہے۔ اس کام کو تیز کرنا ضروری ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردی کی جو فرقہ وارانہ وارداتیں ایک طویل عرصے سے جاری ہیں ان کے بارے میں اب ”را” کے گرفتار ایجنٹ نے یہ معلومات دی ہیں کہ اس نے ایسی تنظیموں سے رابطے بنا رکھے تھے جن کے کارکن یہ وارداتیں کرتے تھے۔ یہ تنظیمیں اگرچہ کالعدم ہیں لیکن ان کے ہمدرد اور سہولت کار ہمارے معاشرے کے اندر ہی موجود ہیں اور جہاں کہیں بھی دہشت گردی کی واردات ہوتی ہے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کسی حملہ آور یا خودکش بمبار نے واردات سے پہلے کہاں کہاں قیام کیا۔ ان تمام سہولت کاروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ بات بھی سامنے آ رہی ہے کہ ”را” کا گرفتار ایجنٹ فرقہ وارانہ تصادم کی راہ ہموار کرنے کے لئے اپنا دائرہ کار اور سرگرمیوں کا نیٹ ورک پنجاب تک وسیع کرنا چاہتا تھا۔ یہ عین ممکن ہے کہ اس نے بلوچستان میں جن لوگوں کو آلہء کار بنایا ہو انہوں نے صوبے سے نکل کر آگے پنجاب تک اپنا نیٹ ورک بنا لیا ہو۔ ماضی میں جنوبی پنجاب کے بعض مدارس کی نگرانی کی جاتی رہی ہے ہوسکتاہے کہ وہ اپنے بعض خودکش بمبار تیار کرکے لاہور اور دوسرے شہروں میں بھیج چکے ہوں۔ تحقیقاتی اداروں کو پوری جاں فِشانی کے ساتھ تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے تب ہی کسی درست نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔